علاقائی اور عالمی مسائل کے حل کیلئے  شہبازشریف کی صائب تجاویز

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کیلئے فوری جنگ بندی اور دوریاستی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ گزشتہ روز نیویارک میں جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں تاریخ کا بدترین ظلم جاری ہے۔ اسرائیل کا بیروت پر فضائی حملہ جس میں حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر شہید ہو گئے‘ دنیا کیلئے تباہ کن پیغام تھا۔ ہم اس اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اسرائیلی مظالم کی مذمت ہونی چاہیے۔ قبل ازیں سلامتی کونسل کے ”لیڈر فار پیس“ کے موضوع پر اعلیٰ سطحی مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے میاں شہبازشریف نے اس امر پر زور دیا کہ دنیا بھر میں بالخصوص فلسطین اور یوکرائن میں جنگ بندی ہونی چاہئے۔ انکے بقول اگر جنگیں نہ روکی گئیں تو دنیا کا مستقبل تاریک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں نسل کشی پر اسرائیلی قیادت کا احتساب کیا جائے اور اسرائیل پر تجارت اور اسلحہ سمیت دیگر پابندیاں عائد کی جائیں جس کیلئے یہی وقت ہے۔ 
انہوں نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شریک عالمی قیادتوں کو باور کرایا کہ مشرق وسطیٰ‘ یورپ اور کسی بھی جگہ پر جنگوں کا پھیلاﺅ‘ عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی اور غربت میں بتدریج اضافہ ورلڈ آرڈر کی بنیادوں کیلئے خطرناک ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ یواین سلامتی کونسل یوکرائن میں جنگ بندی اور پرامن حل کیلئے غیرجانبدارانہ منصوبہ بنائے اور کشیدگی میں اضافے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اسی طرح سلامتی کونسل دیرینہ تنازعہ جموں و کشمیر کو مزید نظرانداز نہیں کر سکتی۔ جموں و کشمیر کے مسئلہ سے عالمی امن و سلامتی کو مستقل خطرات لاحق ہیں۔ سلامتی کونسل کو بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ وزیراعظم پاکستان نے افغانستان سے بالخصوص فتنہ الخوارج کی دہشت گردی کے خطرات کے دوبارہ ابھرنے کی جانب عالمی قیادتوں کی توجہ مبذول کرائی اور سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ فتنہ الخوارج کے تدارک کیلئے موثر اقدامات اٹھائے۔ اسی طرح سلامتی کونسل کو طاقت کے غیرقانونی استعمال پر زیروٹالرنس کا اعلان کرنا چاہیے اور ایٹمی و روایتی ہتھیاروں کی نئی دوڑ کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 
وزیراعظم شہبازشریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملاقات بھی کی اور اس امر کا اظہار کیا کہ اقوام عالم فلسطین کی آزاد ریاست کی تشکیل یقینی بنائے۔ آزاد فلسطین کے بغیر خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان‘ برطانوی وزیراعظم سرکیئر اسٹارمر‘ عالمی بنک کے صدر اجے پال سنگھ‘ یورپی کمیشن کے صدر ارسلا وان ڈیرلیین اور بل اینڈ مینڈا گیٹس فاﺅنڈیشن کے بانی اور شریک چیئرمین بل گیٹس سے بھی ملاقاتیں کیں اور متعدد اہم عالمی امور بشمول موسمیاتی تبدیلیوں کے رونما ہونے والے مضر اثرات پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔ 
اقوام متحدہ کا چارٹر بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہر قسم کے خطرات کے تدارک پر ہی زور دیتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں بڑی طاقتوں کی جانب سے جنگ و جدل اور بالخصوص چھوٹی ریاستوں پر چڑھائی کے رجحان کو نمائندہ عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز کی جانب سے روکنے میں ناکامی کے باعث ہی اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے چارٹر میں تمام رکن ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کسی تنازعہ کے حل کیلئے طاقت کے استعمال اور جنگ و جدل سے گریز کریں گے اور ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کیا جائیگا۔ اسی طرح انسانی حقوق کی پاسداری بھی یواین چارٹر کے بنیادی نکات میں شامل ہے مگر اپنے قیام سے اب تک کے 80 سال کے عرصہ میں یہ نمائندہ عالمی ادارہ بھی لیگ آف دی نیشنز کی طرح اپنے فرائض کی ادائیگی میں مکمل ناکام ہی نظر آتا ہے جسے دنیا کی بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے موم کی ناک بنا رکھا ہے جو اپنے مفادات پر کوئی زد نہیں پڑنے دیتا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے جاپان پر ایٹم بم برسانے سے انسانیت کی جو تباہی ہوئی‘ اس سے آئندہ کیلئے خود کو بچانے کی خاطر دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا رجحان پیدا ہوا۔ اگرچہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خود براہ راست ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کئے اور ایٹمی کلب بنا کر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے بچاﺅ کے راستے بھی اختیار کئے ہیں اور اسی طرح اس نے تخفیف اسلحہ کے معاہدے بھی کئے ہوئے ہیں مگر اس نے اپنے زیراثر اور کٹھ پتلی ممالک بالخصوص اسرائیل اور بھارت کی ایٹمی ہتھیاروں کے حصول و تیاری میں سرپرستی اور معاونت کرکے انکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کیلئے مستقل خطرات پیدا کر رکھے ہیں۔ اسی طرح اسلام دشمن الحادی قوتوں کی سرپرستی بھی امریکہ ہی کرتا ہے جن کا ایجنڈا مسلم دنیا کو کسی نہ کسی طرح انتشار کا شکار کرکے توڑنا اور غیرمستحکم بنانا ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ اور برطانیہ کی ملی بھگت سے مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور برصغیر میں کشمیر کے تنازعات پیدا کئے گئے۔ اس کیلئے ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا اور بھارت کو خودمختار ریاست جموں و کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کی شہ دی گئی۔ بظاہر اقوام متحدہ نے فلسطین اور کشمیر کے تنازعات ان خطوں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کیلئے قراردادیں منظور کیں مگر آج کے دن تک اسرائیل اور بھارت سے ان قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا جو اس نمائندہ عالمی ادارے کی کمزوری کا ہی عکاس ہے۔ 
پھر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو پاور دیکر ان ممالک کے مفادات کیخلاف کسی بھی قراداد یا فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے دینے کے راستے نکال لئے گئے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل امریکہ کی جانب سے ویٹو پاور کا استعمال کرنے کے باعث ہی زیادہ گھمبیر ہوئے ہیں جبکہ ایسے ہی دوسرے علاقائی اور عالمی تنازعات کے حل کیلئے اقوام متحدہ کا کوئی موثر کردار اب تک سامنے نہیں آیا جبکہ بھارت اور اسرائیل کو علاقائی تھانیدار بنا کر امریکہ نے متعلقہ خطوں ہی نہیں‘ پوری دنیا کیلئے مستقل خطرات پیدا کر رکھے ہیں۔ گزشتہ تین سال سے امریکی آشیرباد کے تحت ہی یوکرائن نے روس کے ساتھ جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے مضر اثرات اشیاءخوردونوش اور ادویات تک کی کمیابی کی صورت میں پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں امریکہ نے نیٹو افواج کے ذریعے تقریباً دو دہائیوں تک دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جنگ جاری رکھ کر اس پورے خطے کا امن تہہ و بالا کیا۔ امریکہ خود تو افغانستان سے نکل گیا مگر پاکستان آج تک اس جنگ کے ردعمل میں شروع ہونیوالی دہشت گردی بھگت رہا ہے اور آج فتنہ خوارج کے ساتھ افواج پاکستان برسرپیکار ہیں جس کی مکمل سرکوبی کے بغیر اس خطے اور اسکے ناطے سے پوری دنیا کے امن کی ضمانت نہیں مل سکتی۔ 
ےاسکے ساتھ ساتھ دنیا، بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے جن مضر اثرات کا سامنا ہے‘ وہ انسانی بقاءکیلئے ایک الگ چیلنج کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ تمام علاقائی اور عالمی ایشوز اقوام متحدہ سے مو¿ثر عملی کردار کے متقاضی ہیں جبکہ اس عالمی فورم پر اب تک سوائے نشستند‘ گفتند‘ برخاستند کے، عملیت پسندی والا کوئی لائحہ عمل طے ہوتا نظر نہیں آیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر مختلف عالمی قیادتوں سے ملاقاتوں کے دوران تمام عالمی اور علاقائی مسائل بالخصوص فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے گذشتہ روز جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران بھی ان ایشوز کو اجاگر کیا ہے جن کی علاقائی اور عالمی امن کیلئے پیش کردہ تجاویز گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان ٹھوس تجاویز کی بنیاد پر علاقائی اور عالمی مسائل کے حل کا ٹھوس لائحہ عمل طے کرکے اس نمائیندہ عالمی ادارے کی اٹھارٹی تسلیم کرائی جاسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن