قطب الاقطاب  حضرت خواجہ قُطبُ الدین بختیار کاکی

خالد بہزاد ہاشمی
khalidbehzad11@gmail.com
 قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا تین روزہ813واں سالانہ عرس مبارک 12 تا 14 ربیع الاوّل مہر ولی نئی دہلی میں نہایت تزک و احتشام سے منایاگیا۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ حضرت خواجہ غریب نواز‘ سلطان الہند‘ خواجہ خواجگان‘ خواجہ بزرگ‘ ہند الولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے جانشین‘ محبوب خلیفہ اکبر اور سجادہ نشین ہیں اور حضرت خواجہ غریب نواز نے دہلی کی ولایت اور خلافت کا تاج آپکے سر پروقار پر رکھا تھا‘ حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے حضرت شیخ العالم‘ شیخ کبیر‘ اجودھن کے درویش‘ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کو خلافت عطا فرمائی جبکہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے اپنے لاڈلے خلیفہ محبوب الٰہی‘  سلطان المشائخ‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (نئی دہلی) کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ یوں سلسلہ چشتیہ کے یہ چار چاند اور سورج اجمیر شریف دہلی اور پاکپتن شریف کو اپنی روحانی کرنوں سے منور کر رہے ہیں اور تلاش حق کے متلاشی بندگان خدا صدیوں سے ان سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
اس وقت درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی پر سجادگان سید سیف الرحمن قطبی نیازی، سید مہدی حسین قطبی نیازی خدمات انجام دے رہے ہیں، قبل ازیں سجادہ نشین دیوان سید بدر صمدانی قطبی نیازی مرحوم اور ان کے بھائی ڈاکٹر حبیب الرحمن قطبی نیازی مرحوم خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اور ان کی نگارشات نوائے وقت گروپ میں بااہتمام شائع ہوتی رہی ہیں۔ انکا خانوادہ حضرت قطب صاحب کی حیات مبارکہ سے ہی خدمات پر مامور ہے۔ محترم دیوان بدر صمدانی مرحوم اور ڈاکٹر حبیب الرحمن قطبی نیازی مرحوم ہمیشہ ہی اس گناہ گار سے بہت شفقت فرماتے  رہے۔
قطب الاقطاب کا خطاب
آپ کو قطب الاقطاب کا لقب حضرت خواجہ غریب نواز نے عطا فرمایا تھا۔ آپ 569ء میں پیدا ہوئے جبکہ اس بارے میں دیگر تواریخ بھی ہیں۔ محض ڈیڑھ سال کی عمر میں آپ یتیم ہو گئے۔ اور آپکی تربیت آپکی قابل فخر والدہ نے نہایت محنت سے ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہوئے سرانجام دیں۔
کاکی کہلانے کی وجہ
دہلی میں آپ عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے اور ظاہری دنیاوی اشیاء سے لاتعلقی اختیار کی۔ گھر میں فاقہ ہونے لگا تو آپ کی اہلیہ نے آپ کے علم میں لائے بغیر پڑوسی بقال مشرف الدین کی اہلیہ سے ادھار لینا شروع کر دیا جو بعدازاں لوٹا دیتیں ایک دن بقال کی بیوی نے طعنہ دیا کہ اگر میں قرض نہ دوں تو گھر کیسے چلے‘ اہلیہ نے قرض لینا بند کیا‘ قطب صاحب کے علم میں بات آئی تو اہلیہ سے فرمایا کہ جب ضرورت ہو حجرہ کی طاق سے بسم اللہ کہہ کر جتنی روٹیاں چاہو نکال لیا کرو۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کرتیں ایک روز انہوں نے بقال کی بیوی کو بتا دیا اس دن سے کاک (روٹیاں) نکلنا بند ہو گئیں نان کو کاک بھی کہا جاتا ہے۔
اُستاد محترم کا مرتبہ حضرت خضر علیہ اسلام نے بارہ سال تک تعلیم دی
آپ کے استاد محترم حضرت قاضی حمید الدین ناگوری کا تعلق بخارا کے شاہی خاندان سے تھا اور آپکے والد ماجد اللہ محمود بخارا کے بادشاہ تھے آپکو قاضی حمید الدین ناگوری کا خطاب مدینہ منورہ میں بارگاہ رسالتؐ سے عطا ہوا تھا۔ آپ اپنے اہل و عیال کو کرمان میں چھوڑ کر والد صاحب کے ہمراہ تلاش حق میں نکلے۔ اسی اثناء میں حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کو حکم ہوا کہ محمد بن عطا یعنی قاضی صاحب کو علم لدونی کی تعلیم دو‘ حضرت خواجہ خضر علیہ السلام نے آپ کو بارہ سال تک اپنی خدمت میں رکھ کر تعلیم دی اور پھر بغداد روانہ کیا۔
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کو شرف بیعت بخشنا
قطب صاحب 1194ء میں ملتان شریف لائے۔ ان دنوں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر مولانا منہاج الدین ترمذی کی مسجد میں قیام پذیر تھے اور کتاب ’’نافع‘‘ پڑھ رہے تھے اسی اثناء میں حضرت قطب صاحب تشریف لائے۔ جنہیں دیکھ کر حضرت بابا صاحب کی قلبی کیفیت بدل گئی اور آپ بے اختیار انکے احترام میں کھڑے ہو کر آداب بجا لائے۔ اسی دوران حضرت قطب صاحب نے دریافت فرمایا کہ تم کیا پڑھتے ہیں۔ بابا صاحب نے نہایت ادب سے جواب دیا کہ ’’کتاب نافع‘‘ یہ سن کر قطب صاحب نے بے ساختہ کہا کہ جانتے ہو کہ تمہیں نافع سے نفع ہو گا۔
حضرت بابا صاحب نے جواب دیا کہ مجھے تو آپ کی قدم بوسی ہی نافع ہو گی۔ حضرت بابا صاحب نے اپنا سر قطب صاحب کے قدموں میں رکھ دیا۔ آپ پہلی ہی مجلس میں حضرت قطب صاحب کے بیعت ہوئے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے اس وقت بابا صاحب کی عمر پندرہ سال بتائی ہے۔ 
حضرت خواجہ غریب نواز کی دعا‘ خدایا ہمارے فرید کو قبول فرما
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر دہلی میں قطب صاحب کی خانقاہ پر عبادت و مجاہدات میں مشغول تھے کہ اسی دوران حضرت خواجہ غریب نواز وہاں تشریف لائے۔ حضرت قطب صاحب نے تمام مریدوں کو آپ کے حضور پیش کیا تاکہ وہ آپ سے فیض یاب ہوں۔ آپ نے سب کو روحانی دولت سے سرفراز فرمایا۔ پھر خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب سے دریافت فرمایا۔ تمہارے مریدوں میں سے کوئی نعمت پانے سے محروم تو نہیں رہ گیا۔ قطب صاحب نے کہا کہ جی! مسعود رہ گیا ہے وہ چلہ میں بیٹھا ہے۔ یہ سن کر حضرت خواجہ غریب نواز کھڑے ہو گئے اور کہا کہ آؤ چل کر اسے دیکھتے ہیں آپ نے چلہ کا دروازہ کھولا‘ حضرت بابا صاحب اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ وہ تعظیم کیلئے بھی کھڑے ہونے سے قاصر رہے اور عاجزی و بے بسی میں پرنم آنکھوں کیساتھ اپنا سر نیاز زمین پر رکھ دیا۔ حضرت بابا فرید کا یہ حال دیکھ کر حضرت خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب سے فرمایا کہ اے قطب! کب تک اسے مجاہدے کی آگ میں گھلاؤ گے آؤ! اسے کچھ عطا کریں یہ کہہ کر حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت بابا فرید گنج شکر کا دائیاں جبکہ قطب صاحب نے بائیاں بازو پکڑ کر اٹھایا اور حضرت خواجہ غریب نواز نے آسمان کی جانب منہ کرکے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کیلئے دعا فرمائی۔ 
خدایا! ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا۔ غیب سے ندا آئی کہ ہم نے فرید کو قبول کیا۔ یہ وحید عصر ہو گا اس موقع پر حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بابا فرید صاحب کے بارے میں پیش گوئی فرمائی کہ قطب! بڑے شہباز کو دام میں لائے۔ اسکا آشیانہ سدرۃ المنتیٰ ہو گا‘‘
اولیاء مسجد کا منفرد اعزاز
درگاہ شریف میں ایک مختصر احاطہ میں وہ ’’اولیاء مسجد‘‘ بھی موجود ہے جہاں حضرت خواجہ غریب نواز نے دائیں‘ درمیان میں قطب صاحب اور بائیں حضرت بابا فرید گنج شکر نے اکٹھے نماز ادا کی تھی۔ اسی مقام پر تین مصلے بنا دئیے گئے ہیں اس اولیاء مسجد میں عبادت یا نفل ادا کرنا بہت سعادت اور برکت کا باعث سمجھا  جاتا ہے اور یہاں زائرین کا اژدھام رہتا ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے تین آفتابوں کی بیک وقت نماز ادا کرنے کی سعادت بھی ہندوستان و پاکستان میں صرف اس اولیاء مسجد کو ہی حاصل ہے۔ 
شرپسندوں نے درگاہ کو نقصان پہنچایا تو گاندھی نے اہالیان دہلی کی طرف سے معافی مانگی
قیام پاکستان کے وقت شرپسند اور مذہبی جنونیوں نے آپکی درگاہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا‘ جس سے ناصرف مسلمانوں بلکہ قطب صاحب سے عقیدت رکھنے والے غیر مسلموں کی بھی سخت دل آزاری ہوئی۔ اس موقع پر مہاتما گاندھی درگاہ قطب صاحب آئے اور ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے دہلی والوں کی طرف سے حضرت قطب صاحب سے معافی مانگی اور درگاہ شریف کی دوبارہ تعمیر و مرمت کرائی۔
خانقاہ کے انتظام کیلئے دائی صاحبہ کو اوش سے بلایا
درگاہ کے صحن میں حضرت قطب صاحب کی دائی صاحبہ اور اہلیہ محترمہ کے مزارات بھی ہیں۔ آپ نے اوش سے اپنی دائی صاحبہ کو خاص طور پر خانقاہ کا انتظام سنبھالنے کیلئے بلایا تھا۔
شکم مادر میں اللہ تعالیٰ کا ورد
آپکی ولادت باسعادت سے قبل ہی آپکی روحانی عظمت‘ بزرگی اور صالح ہونے کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے‘ جس کا اظہار مختلف اشکال میں ہوتا‘ آپکی قابل فخر والدہ محترمہ فرماتی ہیں ’’دوران حمل جب میں تہجد کی نماز پڑھنے کیلئے اٹھتی تو میرے شکم میں سے ذکر (اللہ اللہ) کی آواز سننے میں آتی‘ یہ آواز ایک ساعت کیلئے رہتی۔
پیدائش کے وقت سر مبارک سجدے میں سارا گھر بقہ نور‘ والدہ سمجھیں سورج نکل آیا
جب آپ اس عالم جاودانی میں نصف شب کو جلوہ افروز ہوئے تو ایک نور نے سارے گھر کو روشن کر دیا اور سارا گھر بقہ نور بن کر جگمگا اٹھا‘ اس عالم میں آپکی والدہ محترمہ حیران تھیں انہیں خیال گزرا کہ سورج نکل آیا‘ وہ کیا دیکھتی ہیں کہ انکے نوزائیدہ فرزند ارجمند کا سر مبارک سجدے میں ہے اور اپنی ننھی زبان مبارک سے اللہ اللہ کا ذکر فرما رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب ننھے قطب صاحب نے اپنا سر مبارک سجدے سے اٹھایا تو وہ نور بتدریج کم ہوتا گیا۔ انکی والدہ محترمہ کی حیرانی برقرار تھی جس کا جواب غیب کی اس آواز سے آیا!
’’ایں نور کہ دیدی سرّے بود از اسرار الہٰی کہ اکنوں در دل فرزندت نہادیم‘‘
ترجمہ: یہ نور جو تو نے دیکھا ہے‘ اسرار الہٰی میں سے ایک ہے‘ جس کو اب ہم نے تیرے فرزند کے دل میں متمکن کر دیا ہے‘
خواب میں آفتاب کا حضرت ناگوری کے گھر قیام کرنے کا بتانا
قطب صاحب کی دلی آمد سے قبل آپ کے استاد  حضرت قاضی حمید الدین ناگوری خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آفتاب جہاں تاب نے دہلی میں آکر مملکت کو روشن کر دیا ہے اور وہ آفتاب انکے گھر آکر کہتا ہے کہ میں تیرے گھر میں رہوں گا‘ جب انہوں نے اس خواب کی تعبیر لی تو آشکارا ہوا کہ آفتاب سے مراد وہ ولی کامل (قطب صاحب) ہیں جو دہلی میں رونق افروز اور انکے گھر میں قیام پذیر ہوں گے۔
قطب الدین خدا کا دوست
حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ انہوں نے متواتر چالیس روز تک اللہ کے پیارے نبیؐ بمعہ ارواح مشائخ کرام خواب میں یہ ارشاد فرماتے دیکھا کہ:
’’اے معین الدین! قطب الدین خدا کا دوست ہے۔ اس کو خلافت دے اور خرقۂ گلیم پہنا۔‘‘
پھر خواب میں غریب نواز فرماتے ہیں:
’’آج رات میں نے حضرت ذوالجلال قادر باکمال کو خواب میں دیکھا اور مجھے حکم دیا گیا کہ:
’’اے معین الدین! قطب الدین بختیار کاکی کو درویشی کا خرقہ اور خلافت عطا کر، کیونکہ قطب الدین ہمارا دوست اور محمدؐ کا بھی دوست ہے، ہم نے اسے برگزیدہ بندہ بنا دیا ہے اور اس کا نام اپنے دوستوں میں درج کیا ہے‘‘۔ چنانچہ حضرت خواجہ غریب نواز نے 585 ہجری میں خواجہ ابواللیث سمرقندی کی مسجد میں قطب صاحب کو بیعت سے مشرف فرمایا۔ اس موقع پر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ داؤد کرمانی، شیخ برہان الدین محمد چشتی اور شیخ تاج الدین محمد اصفہانی بھی موجود تھے۔ 
مدفن کیلئے جگہ خریدنا:
وصال سے قبل آپ موجودہ مدفن کی بے آباد جگہ تشریف لائے اور سوچ و بچار میں مبتلا ہوئے، احباب کے پوچھنے پر فرمایا مجھے اس زمین سے دلوں  کی بُو آتی ہے، زمین کے مالک کو حاضر کرو۔ چنانچہ آپ نے زر خاص سے یہ زمین مالک سے خرید لی اور اسے اپنے مدفن کیلئے مقرر فرمایا۔
کچی لحد کی وصیت،  بابا فرید الدین گنج شکر سر پر مٹی اٹھا کر ڈالتے رہے:
حضرت قطب صاحب کی لحد کچی ہے اور اس میں کوئی اینٹ اور پتھر استعمال نہیں ہوئے کیونکہ حضرت قطب صاحب کا یہی حکم تھا کہ انکی لحد کچی رہنے دی جائے۔ موجودہ قبر مبارک کے بارے میں بھی ان کے محبوب خلیفہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے ان کی لحد پر حاضر ہو کر بذریعہ کشف ان سے کئی مرتبہ اجازت طلب فرمائی۔ جس کے بعد انہوں نے حضرت بابا صاحب کو نماز عصر سے نماز مغرب تک حوض شمسی سے ازخود مٹی لا کر وہاں ڈالنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور حضرت شیخ العالم، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ہاتھوں سے مٹی اٹھا کر سر پر تغاری میں رکھ کر یہاں لا کر ڈالتے رہے اور ساتھ ہی حد بندی کیلئے کٹہرا بھی بنوا دیا۔ 
بارہ ربیع الاول بعد نماز مغرب مزار مبارک کو غسل دیا جاتا ہے: سید مہدی حسین قطبی نیازی
سجادہ نشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی مہرولی دہلی سید مہدی حسین قطبی چشتی نیازی نے نوائے وقت کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے 813ویں تین روزہ سالانہ عرس مبارک کے حوالے سے بتایا کہ 12 ربیع الاول کو بعد نماز مغرب مزار شریف کو غسل شریف دیا جاتا ہے، صندل پوشی، دعائے خاص، تبرکات کی تقسیم، بعد نماز عشاء، جشن عید میلادالنبیؐ اور لنگر تقسیم ہوتا ہے 13 ربیع الاول کو بعد نماز عشاء چادر پویشی اور قل شریف محفل سماع اور لنگر کی تقسیم ہوتی ہے14 ربیع الاول کو نماز فجر کے بعد نعت خوانی11 بجے قل شریف دعائے خیر اور لنگر تقسیم ہوتا ہے، بعد نماز عشاء جشن حضور خواجہ قطب سرکار، محفل سماع، رات گیارہ بجے سے صبح چار بجے تک محفل سماع جاری رہتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن