حکومت میں ہوتے ہوئے مثبت اشارئیے بتانا آسان ہوتا ہے جب کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر مہنگائی پر بیان دینا بہت آسان ہوتا ہے ۔ دونوں جگہ سیاست دان ہوتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ سیاسی قیادت دونوں جگہ بہت اچھی طرح یہ کام کرتی ہے۔ سیاسی قیادت کے لیے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ملک میں غریبوں کے مسائل بیان کرنا، عام آدمی کے لیے مشکل ہوتی زندگی کو بتانا جب کہ حکومت میں ہوتے ہوئے جی ڈی پی، اور معیشت کے حوالے سے تمام اشارئیے مثبت ثابت کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ملک مشکل صورت حال سے گذر رہا ہے، ہمیں مشکلات کا سامنا ہے لیکن کیا ان معاشی مشکلات کی وجہ ایک عام شہری ہے یا کروڑوں شہری ہیں جن کے بس میں کچھ نہیں ہے، اگر ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا تو حکومت کی ناکامی ہے، اگر ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام میں خامی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہے، اگر ملک میں آمدن اور اخراجات میں عدم توازن ہے تو اس کی ذمہ داری بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور مختلف حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ عام آدمی ان مسائل کی وجہ نہیں ہے۔ ان عام شہریوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ملک پر جب بھی مشکل آتی ہے یہی طبقہ سب سے زیادہ قربانی بھی دیتا ہے اور حکومت کا زور بھی ایسے لوگوں پر ہی چلتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر یہی طبقہ ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے قربانیاں دے رہا ہے۔ بالخصوص تنخواہ دار طبقے کا جو حال ہو رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ اٹھائے کمر دوہری ہو رہی ہے۔ اس دوران وفاقی وزیر اطلاعات کا بیان آتا ہے کہ باتیں ہو رہی تھیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائیگا،آئی ایم ایف کو لیٹر بھی لکھے گئے مگر آج سارے اشاریے مثبت ہیں۔
جناب وزیر صاحب اللہ کرے کہ مثبت اشارئیے نہ رہیں بلکہ مثبت پلس ہو جائیں لیکن عام آدمی کو بتائیں کہ اس کی زندگی میں سکون کب آئے گا۔ روٹی کب سستی ہو گی، آٹا کب سستا ہو گا، دالیں، چینی، دودھ، چائے، سبزیاں، پھل اور ادویات کب سستی ہوں گی، پیٹرول کب سستا ہو گا، بجلی کب سستی ہو گی، یہ جو موسم گرما ختم ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے اس کے بعد موسم سرما شروع ہو گا اس میں گیس کے بل عوام کا کیا حال کریں گے یہ سوچ کر ہی دل ڈوبا جاتا ہے۔ ویسے سنا ہے کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں کچھ پیشرفت ہو رہی ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو پاکستان میں توانائی بحران حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے برسوں سے حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث لٹکا ہوا ہے۔ ایران اگر تھوڑی نرمی نہ دکھائے تو پاکستان کو اربوں ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑے۔ ستم ظریفی ہے کہ حکمران جانتے ہوئے بھی گیس پائپ لائن منصوبے پر ضرورت کے مطابق کام نہیں کرتے۔ اب سننے میں آیا ہے کہ دونوں ملکوں نے اقتصادی اور تجارتی تعاون بڑھانے اور گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے ساتھ ایران اور پاکستان کے مابین مختلف سمجھوتوں کو حتمی شکل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ بالخصوص شہید ایرانی صدر آیت اللہ رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران ہونے والے سمجھوتوں پر عملدرآمد کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے تجارتی لین دین میں سہولت کے لیے ریلوے اور روڈ ٹرانسپورٹ کا وسیع نیٹ ورک بنانے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی تعلقات کا مضبوط ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بالخصوص گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل ہونا چاہیے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں عالمی طاقتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور عالمی اداروں کو قائل کرنا ہو گا کہ لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کے ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایسے منصوبوں پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلہ میں امن و امان کے معاملات کو بھی درست انداز میں سلجھانے کے لیے کسی دباؤ میں آئے بغیر فیصلے کرنے پڑیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان میں عبوری حکومت کے غیر سنجیدہ روئیے کو بے نقاب کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بی ایل اے کا مکروہ چہرہ بھی دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ چند روز گذرے ہیں عدیلہ بلوچ کا واقعہ دنیا کو حقائق بتانے کے لیے کافی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے امریکی میں جو بات کی ہے یہی وہ پلیٹ فارم تھا جہاں بہت اچھے انداز میں ہمسایہ ممالک کے عدم تعاون بارے دنیا کو بتایا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں عبوری حکومت جن گروہوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے وہ صرف پاکستان نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ پاکستان میں معاشی استحکام کے لیے پائیدار امن کا قیام ضروری ہے اور جب تک سرحد پار سے مداخلت رکتی نہیں اس وقت تک مسائل رہیں گے لیکن جس انداز میں افواج پاکستان ملک میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر رہی ہے اس نیٹ ورک کو توڑاجا رہا ہے عبوری افغان حکومت اور اس کی حمایت کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ تو کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں طالبان کو واپس لانے کی پالیسی غلط تھی، اس کے اثرات خیبر پختونخوا میں نظرآرہے ہیں۔
حکومت کے معاشی اقدامات کی مفتاح اسماعیل نے بھی تعریف کی تھی حالانکہ وہ ماضی میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کے صدر اجے بنگا نے بھی وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات میں پاکستان کی میکرو اکنامک اصلاحات کو سراہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکا میں جاری اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کی سائیڈ لائن پر ہونے والی اس ملاقات کو اچھا قرار دیا۔ورلڈ بینک کے صدر کہتے ہیں کہ ہم ملک کی ترقی کے پارٹنر ہیں، پاکستان کے ساتھ شراکت داری کیلئے ٹیکنالوجی، علم اور مالی تعاون پر فوکس کر رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت کی تعریف ہو رہی ہے لیکن ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام اور ٹیکس عائد کرنے کے معاملے میں حکومت جب تک زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کو آگے نہیں بڑھائے گی، اصلاحات کا کڑوا گھونٹ نہیں لیا جائے گا، امیروں سے ٹیکس لینے کے معاملے میں سختی نہیں ہو گی اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق سیلز ٹیکس کی مد میں 3400 ارب روپے کے ٹیکس گیپ کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ معاملات جلد سدھارنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ لوگ تین چار سال انتظار کریں آئی ایم ایف معاہدہ ہوا، قرض کے مے کی دوبارہ سہولت میسر ہوئی ہے لیکن ہم کب تک ایسے قرضوں کے سہارے رہیں گے۔ اگر آئی ایم ایف کہتا ہے کہ مالداروں پر ٹیکس عائد کریں تو حکومت کو روکتا کون ہے۔ یہ چوہے بلی کا کھیل بند ہونا چاہیے۔ تنخواہ دار طبقے کو بھی ریلیف ملنا چاہیے اور مثبت اشارئیے کا اثر سڑک پر چلتے لوگوں کے چہروں پر نظر آنا چاہیے۔
آخر میں اختر شیرانی کا کلام
کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا
ترک دنیا کا یہ دعویٰ ہے فضول اے زاہد
بار ہستی تو ذرا سر سے اتارا ہوتا
وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا
زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب
عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا
عظمت گریہ کو کوتاہ نظر کیا سمجھیں
اشک اگر اشک نہ ہوتا تو ستارا ہوتا
لب زاہد پہ ہے انسان حور جنت
کاش اس وقت مرا انجمن آرا ہوتا
غم الفت جو نہ ملتا غم ہستی ملتا
کسی صورت تو زمانے میں گزارا ہوتا
کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی
گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا
کوئی ہمدرد زمانے میں نہ پایا اختر
دل کو حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا