پوسٹ مارٹم

Apr 29, 2009

اصغر علی کھرال
اصغر علی گھرال
ہم نے یہاں گجرات میں تھنکر فورم کے نام سے ایک چھوٹا سا حلقہ احباب بنا رکھا ہے۔ جہاں حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کیساتھ خوب گپ شپ ہوتی ہے اور بزعم خویش کائنات کے اسراروموز کی تفہیم کیلئے مذہبی رہنمائی کیساتھ سائنس کی روشنی سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ ہفتہ کو اعلی عدلیہ میں چھٹی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے کچھ وکیل دوست لاہور اور اسلام آباد سے بھی اس روز اس محفل میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک ایسے ہی مہمان وکیل دوست نے برسبیل تذکرہ بتایا کہ ہم چند دوستوں نے اپنی اعلی عدالت کے انتظامی امور کے فاضل جج صاحب سے گزارش کی کہ لائبریری کو ذرا مزید اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص ہمارے ہاں جو انسائیکلوپیڈیا کا سیٹ ہے یہ بہت پرانا ایڈیشن ہے جدید ایڈیشن میں دوررس تبدیلیاں اور اضافے ہو چکے ہیں۔ جج صاحب نے استفسار فرمایا کہ SET کتنے میں آ جائیگا؟
بتایا… لگ بھگ ایک لاکھ روپے تو لگ جائیں گے۔
ہنس کر کہنے لگے۔ یہ تو خاصا مہنگا ہے۔ تاہم اسے ضرور منگوائیں گے۔ وکیل صاحب کہنے لگے یہ بات میں نے کسی شکایت کے حوالے سے نہیں کی۔ میں ایک تضاد کو ہائی لائٹ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یوں کہ تیسرے دن ہماری عدالت کی اچھی بھلی ٹھیک عمارت کی مزید تزئین و آرائش کیلئے مبلغ 50 لاکھ کی قیمتی ٹائلیں آ رہی تھیں۔
ایک صاحب کہنے لگے ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہی قومی ترقی کا یہی تصور رہا ہے۔ دنیا ہماری جہالت سے تنگ ہے۔ بیزار ہے چنانچہ کروڑوں اربوں کے فنڈز فروغ تعلیم کے نام پر بیرونی ممالک سے آتے ہیں لیکن ہم ان سے سکولوں کالجوں کی سائنس لیبارٹریز کیلئے بلاضرورت نئے دفاتر کی تعمیر اور دفتروں میں موجودہ فرنیچر اور پردوں کو اونے پونے نیلام کرکے جدید اور زیادہ خوبصورت فرنیچر اور پردوں پر خرچ کر دیتے ہیں یا اللوں تللوں میں اڑا دیتے ہیں۔
کھڑکی کے قریب بیٹھے صاحب نے باہر دیکھ کر کہا… شمال سے خوفناک آندھی اور سیاہ طوفان آ رہا ہے۔ ہم گھبرا گئے۔ باہر نظر ماری۔ تو مطلع بالکل صاف تھا۔ کہنے لگا۔ میرا مطلب اس طوفان سے ہے جو جنرل صوفی کی کمان میں لشکر جرار کیساتھ آگے بڑھتا اور بستیاں تاراج کرتا آ رہا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آنیوالے شرعی نظام میں انگریز کے دیئے ہوئے اس غیر شرعی عدالتی نظام یا سائنسی تعلیم کی کوئی گنجائش ہے جب ان اعلی اور ادنی عدالتوں اور جدید تعلیمی اداروں کا فیوچر ہی مخدوش ہے تو کہاں کی انسائیکلوپیڈیا اور کہاں کی نیوٹن اور آئن سٹائن کی بخیش؟
کہتے ہیں ناں‘ بی بی نتھ کڈھاون نوں پھر دی اے… تے خصم نک وڈھن نوں پھر دا اے ۔ (یعنی (بھولی) بیوی ناک کیلئے (سونے کی) نتھ بنوانے سنار کے پاس گئی ہے اور خاوند میاں اسکی ناک کاٹنے کیلئے چھری تیز کر رہا ہے)
محفل میں ایک صاحب نے توجہ دلائی کہ اب تو انگریزی زبان و ادب محفوظ نہیں۔ کسی اخبار میں کسی بزرجمہر نے اس بدیسی زبان کے خلاف خاصی جذباتی ’’اپیل دائر‘‘ کر رکھی تھی۔
دوسرے صاحب کہنے لگے… اس عظیم ریفارمر سر سید احمد خانؒ کی روح نہ تڑپ اٹھی ہو گی۔ جنہوں نے مسلمانوں کو جہالت کے اندھیروں سے باہر نکالنے کیلئے جدید تعلیم اور قرآن پاک کی عقلی تاویل پر زور دیا اور یہ نام نہاد خود ساختہ شریعت کا دلدادہ ملاں اتنا غضبناک ہوا کہ سارے ہندوستان کے اس زمانے کے 60 جید علما نے ان کیخلاف کفر کے فتوے پر دستخط کئے۔ اور اس پر اکتفا نہیں کیا۔ اپنی بات بات پر اللہ پاک سے براہ راست ہدایت حاصل کرنیوالوں نے اسے اللہ تعالی کی تصدیق و تصویب کیلئے حجاز مقدس بھجوایا جہاں مکہ معظمہ کی چاروں فقہوں کے مفتیان کرام نے بھی (آئی ایگری) لکھ دیا۔ مدینہ منورہ کے مفتی احناف جناب شیخ محمد امین بابی نے نہ صرف فتوے کی تائید کی بلکہ سر سید احمد خانؒ کو واجب القتل قرار دیدیا۔ وہ تو خیریت گزری کہ انگریز کا دور تھا ابھی کسی ملاں کی خود ساختہ شریعت نافذ نہیں ہوئی تھی ورنہ سر سید کی گردن اڑا دی جاتی۔
ایک صاحب بولے… یہ دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں ملاں کے غلبے نے روشن خیالی کے لفظ کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے حالانکہ اگر احمقوں کے سروں پر سینگ اگتے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارا جاہل ملاں خیر سے بارہ سنگا ہوتا۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ موجودہ ’’کفر‘‘ پر مبنی نظام پاکستان کے عوام کیلئے ٹھیک ہے یا مجوزہ شرعی نظام باعث رحمت ہو گا تو اس بارے میں ایک صاحب نے یہ واقعہ سنایا۔ کہنے لگے۔ ہمارے محلے میں مائی نوراں بے چاری مدت سے بیمار چلی آ رہی تھی اور ڈاکٹر اعجاز علی میر کے زیر علاج تھی مگر قطعاً کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ شہر میں ایک نئے ڈاکٹر صاحب نے بھی کلینک کھولا۔
ایک دن میں ڈاکٹر اعجاز کے ہاں بیٹھا تھا تو مائی نوراں آئی اور آتے ہی ڈاکٹر اعجاز میر پر برس پڑی۔ کہنے لگی۔ میں نئے ڈاکٹر صدیق عرفان کے پاس گئی تھی۔ انہوں نے آپکی یہ پرچی دیکھ کر ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا ہونٹوں میں انگلی دبا کر فرمانے لگے… بی بی ! تیرے تو مرض کی تشخیص بھی غلط ہوئی ہے‘‘ ہائے میں مر گئی!
ڈاکٹر اعجاز میر نے بڑے تحمل سے جواب دیا بی بی میری مخلصانہ رائے بھی یہی ہے کہ تم آئندہ اپنا علاج ڈاکٹر صدیق عرفان سے ہی کرائو۔ رہ گئی یہ بات کہ کس کی تشخیص غلط تھی اور کس کی درست؟ تو یہ پوسٹ مارٹم سے پتہ چل جائیگا کہ میری تشحیص درست تھی یا ڈاکٹر صدیق کی!
مزیدخبریں