امریکی مورخ سائیکولوجسٹ اور مصنف DALE CARNEGIEاپنی کتاب BIOGRAPHICAL ROUND UP میں لکھتا ہے ’’تاریخ عالم میں چرچل کے سوا کوئی ایسا شخص میری نظر سے نہیں گزرا جس کی زندگی اتنی ہیجان انگیز‘ مہم جُو اور پُرخطر گزری ہو‘ جس کی محدود زندگی میں غمی خوشی‘ ناکامی اور کامیابیوں کے اتنے رنگ بھرے ہوں۔ جوانی میں وہ انڈین آرمی بنگال لانسرز میں رہا وہ لارڈ کچز کی کمان میں سوڈان میں لڑتا رہا۔ وہ 26 سال کی عمر میں برٹش پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا۔ وہ جنوبی افریقہ میں جنگی صحافی تھا۔ وہاں BOER WAR پر لکھتا رہا‘ پکڑا گیا لیکن بھاگ نکلا۔ 1911ء میں چرچل برٹش نیوی کا فسٹ سی لارڈ یعنی سربراہ تھا۔ جب اتحادیوں نے ترکی کا محاصرہ کیا چرچل نیوی کے ساتھ آیا۔ مصطفی کمال پاشا کے جوابی حملوں نے اتحادیوں کو پسپائی پر مجبور کیا۔ گیلی پولی کی لڑائی میں چرچل نے حصہ لیا۔ دوسری عالمی جنگ میں چرچل سلطنت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا‘‘۔
1959ء میں دیر باجوڑ میں دہشت گردوں نے گڑ بڑ شروع کی تو پاک آرمی کو وہاں امن بحال کرنے کا حکم ملا۔ راقم ان دنوں مارٹر بیٹری میں تھا۔ راستے میں مالاکنڈ آتا ہے مالاکنڈ سے نیچے اتریں دریائے سوات کی طرف جائیں اسکے سامنے ایک بیلی پل بنا ہوا ہے۔ وہاں ایک پہاڑی پر چھوٹا سا قلعہ ہے۔ قلعہ کی دیوار پر بورڈ آویزاں ہے ’’ونسٹن چرچل نے یہاں قبائلیوں سے جنگ کی تھی‘‘۔
اس وقت چرچل کی عمر 22 سال تھی اور لانسرز (سوار رسالہ) میں وہ شاید کیپٹن تھا۔ اس مقام پر ہم رک گئے اور غور کرنے لگے جب نوجوان چرچل پر قبائلی گوریلے اچانک حملہ آور ہوئے تھے۔ چرچل لڑائی میں گھوڑے سے گرا۔ اسکی تلوار دور جا گری وہ اٹھا اور حملہ آور پر 5 فٹ سے پستول سے فائر کیا۔ اس کی یونٹ کے جوان بھی آگئے ۔ اس لڑائی میں دونوں اطراف کتنے مارے گئے اس کا علم نہ ہو سکا۔ ونسٹن چرچل کی قسمت میںآگے چل کر عالمی جنگ کا ہیرو بننا تھا‘ وہ لکھتا ہے۔ ’’NEVER RUN AWAY FROM DANGER‘‘ ’’خطرہ دیکھ کر نہ بھاگو‘‘ اگر تم خطرہ دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لو گے تو خطرہ دوگنا ہو جائے گا۔ اگر تم بہادروں کی طرح خطرے کا سامنا اور مقابلہ کرو گے تو خطرہ آدھا رہ جائے گا‘‘۔ خیال آیا کہ آج پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ بھارت کی آبی جارحیت سے ہے۔ بھارت نے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک لیا ہے۔ منگلا اور تربیلا ڈیمز ڈیڈ لیول تک پہنچ چکے ہیں۔ بھارت نے چناب اور جہلم کا پانی مکمل طور پر روک لیا ہے۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2012ء تک منگلا اور تربیلا ڈیمز خشک ہو جائینگے۔ بھارت نے ٹنل کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی ڈائیورٹ کر لیا ہے اب وہاں صرف 20 فیصد پانی آ رہا ہے۔
اس بھارتی آبی جارحیت کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں اور لیڈروں کا خاموش رہنا خطرات سے بھاگنا ہے۔ ان خطرات کا بروقت اور جرأت مندانہ طریقے سے مقابلہ نہ کیا گیا تو چند سال میں ملک ریگستان بن جائیگا۔ آبی جارحیت کا بھارتی اژدھا جبڑے کھولے پاک سرزمین پر شعلے برسا رہا ہے اور ہمارے لیڈر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے سہک رہے ہیں تا کہ قوم سکتہ کی حالت میں رہے۔ ادھر کالا باغ ڈیم کی تعمیر روک دی گئی ہے تا کہ عوام چکی کے پاٹوں میں پستے رہیں۔ اس سے خطرات کم نہیں ہونگے بلکہ کئی گنا بڑھ جائینگے۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے مکمل اتحاد اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ عملدرآمد کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ ملکی سلامتی کیلئے قوموں کو قربانیاں دینی ہی پڑتی ہیں۔ میز پر بیٹھ کر‘ ہاتھ جوڑ کر‘ گفت و شنید کے ذریعے‘ بیک ڈور ڈپلومیسی سے لالہ جی دریاؤں کا پانی بحال نہیں کریگا۔ بھارتی گدھ چاہتے ہیں کہ بغیر جنگ کئے ہماری قوت مدافعت ختم کر دیں تا کہ اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو سکے۔
چرچل کی دوسری نصیحت یہ ہے کہ جنگ کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ (1) مدمقابل کی جنگی صلاحیتیں کیا ہیں (2) اپنے اور دشمن کے وسائل کا تناسب کیا ہے (3) تاریخ کس کی پشت پر ہے۔
آج ہم امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی خوشنودی کیلئے اپنے ہی قبائلیوں سے نبردآزما ہیں جو کبھی پاکستانیوں کے بازوئے شمشیر زن تھے۔ قبائلی اور طالبان گوریلے چھاپہ مار جنگ کے ماہر ہیں۔ افغان صدیوں سے غیر ملکی فوجوں سے نبرد آزما رہے ہیں۔ انگریز‘ روسی‘ امریکہ‘ نیٹو کی جدید ترین اسلحہ سے لیس افواج انہیں فتح نہ کر سکیں۔ صدیوں تک افغانستان سپرطاقتوں کا قبرستان بنا رہا‘ اسی لئے امریکی انتظامیہ آج طالبان سے امن و سلامتی کا راستہ اپنا رہی ہے۔ پاک فوج کو قبائلیوں سے طویل جنگ بہت مہنگی پڑیگی جبکہ بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں بعض قبائل کو پاکستان کیخلاف مسلح اور ٹرینڈ کر کے بھیج رہی ہیں۔ یہاں تک کہ سی آئی اے بھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو چاہئے کہ پختونوں سے جنگ کی بجائے امن و سلامتی کا راستہ اپنائیں۔
جنرل مرزا اسلم بیگ چرچل کی نصیحت کا ذکر کرتے ہیں جس پر آجکل امریکی جنرل سٹانلے افغانستان میں عمل پیرا ہے۔ جنرل بیگ لکھتے ہیں ’’جنرل میکرائسٹل نے چرچل کی کتاب کے الفاظ امریکی انتظامیہ کو پڑھ کر سنائے۔ چرچل لکھتا ہے۔ ’’افغانیوں کی یہ عادت ہے کہ جب بھی کوئی غیر ملکی فوج افغانستان میں اپنی مرضی سے امن و امان قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے افغان اتنا ہی غصہ اور جارحیت سے اسکا جواب دیتے ہیں۔ افغانیوں پر فوج‘ توپوں‘ گولیوں‘ خونریزی‘ تشدد کا کوئی اثر نہیں ہوتا ایسی جارحانہ کارروائیوں سے انکی نفرت اور دشمنی میں اضافہ ہوتا ہے‘ اس لئے مسئلہ کا حل اسی میں ہے کہ افغان سرزمین سے نکلا جائے اور قبائلی سسٹم کے ذریعے کام نکالا اور چلایا جائے اور خون خرابہ قبائلیوں پر چھوڑ دیا جائے‘‘۔
جنرل اسلم بیگ لکھتے ہیں ’’حالیہ سٹرٹیجک گفت و شنید میں پاکستان کے ساتھ نئی سٹرٹیجی اپنائی گئی۔ اس امید پر کہ پاک فوج شمالی وزیرستان میں طالبان کا صفایا کرکے افغانستان میں بھی طالبان کیخلاف اپریشن کریگی لیکن آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے وطن واپسی پر امریکی انتظامیہ کی منصوبہ بندی پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ ’’پاکستان وزیرستان میں اپریشن نہیں کریگا‘‘ (نیشن 4 اپریل) جنرل کیانی نے ایسا بیان دے کر ملکی سلامتی کو بچا لیا۔