”شام غریباں اور حُسن ظن“

نوازخان میرانی ۔۔۔
فوکر جہاز تیز آندھی اور گرج چمک‘ موسلادھار بارش میں اس طرح سے ڈول رہا تھا۔ جس طرح آجکل کے صاحبِ حیثیت اور کچھ کم ظرف لوگ بوقت شام سرعام ڈولتے ہیں۔ ہَوا کے زور سے وہ اپنے مستقر سے بہت دور چلا جاتا اور پھر پورا زور لگا کر دوبارہ سیدھی راہ پر آتا۔ یہ خوفناک صورتحال دیکھ کر مجھے پسینے چھوٹ گئے اور چہرہ پیلا پڑ گیا مگر میرے برابر بیٹھا ہوا میرا دوست مطمئن چہرے سے مسکراہٹ سجائے‘ مجھے طنزیہ انداز میں دیکھ رہا تھا‘ میں نے دیکھا کہ اچانک اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور حواس باختہ نظر آنے لگا۔ میں نے مزید پریشان ہو کر پوچھا‘ بھائی پریشان کیوں ہو گئے ہو‘ تو وہ بولا میں نے آندھی طوفان کی پرواہ کئے بغیر اپنے سامنے بیٹھے انگریز پر نظریں گاڑھے رکھیں کہ یہی لوگ تو جہاز بنانے والے ہیں۔ جب انگریز وحشت زدہ ہو کر ڈر گیا تو میرا ڈر جانا اب آپ کو سمجھ آ جانا چاہیے‘ اپنے ڈولتے اور جھومتے ملک کے حالات کو اگر دیکھیں تو ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“ کا فارمولا نظر آتا ہے‘ اگر زرداری مینگنیاں ڈال کر دودھ دیتے ہیں‘ گو ان کی افادیت اپنی جگہ پختہ بھی ہو تو بھی اپنی اہمیت کم کرا لیتی ہے مگر اپنے دوست کو بچانے کی خاطر بیک جنبش قلم قیدیوں کی سزا میں ایک چوتھائی کمی کر دی ہے تو صدر زرداری پر یہ ناجائز اور بے جا تنقید ہے۔ ان خیالات کا اظہار ملک کے نامور لکھاری اور طے شدہ دانش کی تحریر پڑھ کر اچانک مجھے بھی اپنے خیالات و نظریات بدلنے میں ذرہ دیر نہیں لگی کہ جہاز بنانے والوں کی طرح اگر قانون بنانے‘ اور عملدرآمد کرانے والا اگر یہ کہہ رہا ہے تو سچ ہی کہہ رہا ہو گا‘ دوستوں کے بارے میں یہی حُسن ظن ہماری بلندی اور ہماری پستی کا سبب ہے۔ اگر دوست نوازی‘ میرٹ پر حاوی ہو گئی تو صدر جب پھیرے لگایا کرتے تھے تو ایک پھیرے پر ساتھ نہ جانے والا دانشور پھیرے باز ابھی تک ان سے ناراض ہے تو پھر وہ کس کس کو خوش کریںگے‘ ویسے بھی اگر وہ ایک چوتھائی قیدیوں کی سزا میں تخفیف کر سکتے ہیں تو باقی قیدیوں کا کیا قصور ہے بیک جنبش قلم بُرے حالات میں رہنے والے سب قیدیوں کو آزاد کر کے خوش کر دیتے‘ مگر شاید اس میں ایک خطرہ تھا کہ پھر تو سولہ کروڑ قیدیوں کو آزاد کرنا پڑتا۔ خیر دوستوں کا دوستوں سے حسن ظن قائم رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب اور پُراسرار علما کے بارے میں اپنے سابقہ کالم میں مَیں نے یہ سطور لکھی تھیں کہ ”ہر مسلک والے کے نظریات‘ ایک جیسے نہیں ہوتے‘ ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ دین کی خاطر شیعہ سُنی‘ اہلحدیث‘ بریلوی غرضیکہ سارے مسلمان ایک ہیں“ مگر اخبار میں ایک کی بجائے (الگ) لکھا گیا۔ جس سے اس کا مفہوم یکسر بدل گیا‘ میرا دوست سے حُسن ظن‘ ان کے حُسن زن کے باوجود‘ بدستور قائم ہے کہ ایسا سہواً ہو گیا ہو گا کہ مفاہمت‘ یکجہتی رواداری اور بین المذاہب کی یکساں سوچ کے اس دور میں کہ جس کے ایک فقرے‘ ایک لفظ اور ایک سطر میں کسی بھی مسلک والے کی دل آزاری نہ
ہو بلکہ ہر مسلک والے کی اچھی بات ذہن نشین کر کے اپنا لینی چاہیے۔ اگر اہلِ بیت کی محبت اور عقیدت میں اضافہ سُنیوں کے علماءکے علاوہ علامہ رشید ترابی سے لیکر علامہ طالب جوہری کی قرآن فہمی کی بدولت ہوتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے‘ ہمارا تو ایمان ہے کہ علم مسلمان کی کھوئی ہوئی میراث ہے جہاں سے ملے لے لینی چاہیے‘ توکل اور توحیدِ کامل کا درس اہل حدیث سے اور حُب رسول بریلوی حضرات سے لینے میں کیا حرج ہے؟ جہاں تک شام غریباں سُننے کا تعلق ہے تو سُنی حضرات بھی اکثر سُنتے ہیں اور قرآن کی تفہیم اور تدریس و تفاسیر کا بیان بڑا دلکش ہوتا ہے۔ محرم کا احترام اور خصوصاً دس محرم کا احترام واجب ہے ورنہ تو مسلمان تو وہ بھی ہیں جنہوں نے ازواجِ مطہرات اور رسول پاک کے قریب ترین رشتہ داروں کے مزارات مسمار کر دیے ہیں‘ کیا ایسے واقعات بھی ہمارے لئے شامِ غریباں سے کم ہیں کہ حضور کی جائے پیدائش کو بھی اصل حالت میں نہیں رہنے دیا گیا‘ مگر شامِ غریباں تو اسے کہتے ہیں کہ خدا نہ کرے جن پر قیامت سے پہلے قیامت گزر جائے‘ چاہے وہ ایک انسان پر گزرے چاہے کروڑوں انسانوں کے حُسن ظن پر‘ کیا عالم بے عمل اور کچھ پُراسرار علمائ‘ جن کا دین اور دنیا دو بیڑیوں میں پاﺅں ہوتا ہے وہ طیبہ ضیا کے بقول اپنی عقیدت‘ محبت‘ ایثار اور اسلام سے والہانہ پیار اور روحانیت کے دشت کی صحرائی میں تلاشِ حق میں بعض علماءکے بارے میں اپنا حُسن ظن مجروح کرا بیٹھتے ہیں‘ پھر اسلام کی حقانیت کو مجروح کر بیٹھنے والوں کے لئے وہی شامِ غریباں ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن