لٹے پٹے سے
بھوک سے نڈھال
آوارہ بادل کی طرح
سڑک کنارے گر پڑے تھے
اک ہوٹل
خوشبوئیں، رنگ برنگے لہراتے آنچل
مگر خالی جیب، اور خالی ہاتھ
محرومیاں آنکھوں سے جھلکی تھیں
کہ اچانک زندگی کی جوت جاگی
وہ روئی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا
کوڑے کے پاس نویدِ زندگی بنا
ہاتھ بڑھا کے دونوں نے اسے اٹھایا
اچانک ایک پلا
رکے قریب دم ہلانے لگا
وہ نویدِ زندگی وہ ٹکڑا
شکستہ جاں مسافروں نے
”گرا دیا“
(مس طاہرہ جبین تارا برنی روڈ گڑھی شاہو لاہور)