جاوید ہاشمی ایک سچے اور دلیر پارلیمنٹرین کے طور پر پارلیمنٹ میں بولتا ہے۔ ورنہ ہمارے ممبران صرف اپنے پارٹی لیڈر کی باتوں کی جگالی کرتے ہیں۔ اس کی ہاں میں ہاں اور نہیں میں نہیں ملاتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ صدیق الفاروق بھی صرف نواز شریف کا ترجمان بن کے رہ گیا ہے۔ کبھی وہ اپنے دل کی ترجمانی بھی کرتا تھا۔ یہی حال دل والے پرویز رشید کا ہوا ہے۔ اس کا یہ کام البتہ بہت قابل تحسین ہے کہ وہ راجہ انور کو پنجاب حکومت میں کام پہ لے آیا ہے۔ اب یہ بھی کرے کہ اسے کام کرنے دیا جائے۔ ہمارے حکمرانوں کو جب تک افسروں کی محتاجی سے نجات نہیں ملے گی تو کچھ نہیں ہو گا۔ بیورو کریسی کو برا کریسی بننے سے روک لیا جائے مگر یہ شاید ابھی ناممکن ہے۔ جاوید ہاشمی نے قوم سے معافی مانگی ہے کسی سیاستدان سے نہیں مانگی۔ ہمارے سیاستدان غلطیاں قبل از وقت کرتے ہیں اور معافی بعداز وقت مانگتے ہیں۔ وقت پر کوئی کام کرتے ہی نہیں یا انہیں کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ یہ دونوں ایک ہی کام ہیں۔ جاوید ہاشمی نے جنرل ضیا کا وزیر شذیر رہنے پر معافی مانگی ہے۔ ”گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر“ معافی مانگتے ہو تو تلافی بھی کرو، جاوید ہاشمی نے تو اپنے طور پر بہت تلافی کر لی ہے۔ یعنی اپنا نقصان کر لیا ہے۔ مگر اس کا کوئی فائدہ عوام کو نہیں ہوا یہ تلافی اس طرح بھی ہو گی کہ اس نے اپنے لیڈروں پر بھی زور دیا کہ تم بھی معافی مانگو۔ تم نے بھی میرے جیسا کام کیا تھا۔ یہ میرے کام سے بڑا تھا۔ نواز شریف وزیراعلی بنے۔ جنرل ضیا کے بعد۔ اس کی عمر گزار رہے ہیں اس کی دعا قبول ہوئی اس نے دعا کی تھی: اے اللہ! میری عمر بھی نواز شریف کو لگا دے! وہ بابر بادشاہ کی طرح اپنی جان ہار گیا اور نواز شریف ہمایوں کی طرح ”بادشاہ“ بن گیا۔ اس نے وزارت عظمٰی کو شاہی میں بدلنے کی کسی حد تک کامیاب کوشش کی اور جنرل ضیا کی طرح امیرالمومنین بنتے بنتے رہ گیا۔ ہمارے صوفی دانشور بزرگ واصف علی واصف نے خوب کہا کہ جس قوم کے لوگ معافی مانگنے اور معافی دینے میں دیر اور ضد کرتے ہیں غرور میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ قوم ذلیل و خوار ہو جاتی ہے۔ معافی مانگنا اور معاف کرنا نواز شریف کی ڈکشنری میں ہی نہیں۔ اس میں سارے ایسے الفاظ ہی نہیں۔ چودھری برادران نے ایسا ہی ”جرم“ جنرل مشرف کے حوالے سے کیا ہے۔ مگر یہی کام جنرل ضیا کے ساتھ جرم نہیں۔ ضیا نے بھٹو کی حکومت توڑی اور اسے پھانسی دی۔ وہ بھی بھٹو کو معاف کرتا مگر بھٹو نے بھی معافی نہ مانگی۔ ایسا موقعہ آتا ہے زندگی میں کہ معافی نہ مانگنا اور معاف نہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے مگر ہم ضروری اور غیر ضروری میں فرق نہیں کرتے۔
ہمارے سیاسی منظر نامے میں ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں جو جرنیلوں اور ایجنسیوں کی پیداوار نہ ہو۔ یہ گملوں میں اُگے ہوئے درخت ہیں۔ ان کی چھاﺅں میں بسنے والے اور پھل کھانے والے مخصوص اور ذاتی لوگ ہیں۔ موروثی سیاست اور خاندانی حکومت نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ پارٹی لیڈر کو چھوڑیں کہ وہ صرف پارٹی لیڈر ہیں لیڈر نہیں۔ عام ممبران بھی اسمبلی کی رکنیت گھر سے باہر نہیں جانے دیتے اور بیورو کریٹس افسری کو صرف اپنے گھر میں اور اپنے دفتر کے اندر رکھتے ہیں۔ شریف برادران جاوید ہاشمی کے اس قلندرانہ مشورے پر عمل کریں تو وہ سرخرو ہوں گے۔ مگر چودھری نثار اور اس کے جیسے لوگ انہیں یہ نہیں کرنے دیں گے۔ وہ صرف انہیں سرشار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مدہوش ہونے اور مغرور ہونے میں فرق کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ نواز شریف کو بے عزت کرانے والا چودھری نثار ہے۔ بلیک میلنگ سے خود کو سینئر وزیر اور پھر اپوزیشن لیڈر بنوایا، فرینڈلی اور سرکاری اپوزیشن کے نعرے تخلیق کرائے۔
بے نظیر بھٹو کو شہید سب مانتے ہیں اور کون تھا جو اس کی موت پر رویا نہ ہو۔ خود نواز شریف پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں سے پہلے ہسپتال پہنچے تھے اور یہ اچھی سیاسی روایت تھی۔ مگر کیا اپنے طور پر پارٹی کا کوئی آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا۔ ن والوں کو جاوید ہاشمی کے عمران کے دھرنے میں جانے پر بھی اعتراض ہے۔ اب چودھری نثار نے عمران پر ایجنسیوں کے حوالے سے الزام تراشی کی ہے۔ یہ الزام درپردہ جاوید ہاشمی پر لگایا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ وہ خود ایجنسیوں سے رابطوں کے لئے مشہور ہے۔ اس کے لئے نواز شریف کی پسندیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایجنسیوں سے رابطے کے لئے بہت موزوں شخص ہے۔ ملک غلام سرور بھی ق لیگ کی حکومت میں وزیر تھا مگر اس کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے چودھری نثار کو کئی بار شکست فاش دی ہے۔ دیہاتی کھرے پن کے ساتھ اپنے لوگوں میں گھل مل کر رہنے والا سرور جاوید ہاشمی کو پسند کرتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اب جاوید ہاشمی کو ڈاکٹر جاوید ہاشمی کہنا چاہئے۔ شیخ رشید کی طرح وہ بھی مجید نظامی سے عقیدت رکھتا ہے۔ مجید صاحب کی شفقت دونوں کو حاصل ہے۔ سارے منجھے ہوئے سیاستدان زرداری کے سامنے حیران ہیں اور نواز شریف پریشان ہے۔ ہمارے ایک غیر سیاسی دانشور ڈاکٹر شبیہ الحسن نے ہمدردانہ انداز میں کہا کہ شریف برادران بالخصوص نواز شریف کرکٹ کے کھلاڑی ہیں اور صدر زرداری شطرنج کے کھلاڑی ہیں۔ دونوں کا کیا موازنہ اور کیا مقابلہ۔ اب چال چلی جا رہی ہے کہ شریف برادران کو صرف پنجاب تک مصروف رکھواور محدود کر دو۔ زرداری حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینے والے سیاستدان اور میڈیا کے لوگ تنگ آ گئے ہیں مگر انہیں صدر زرداری نے ”تنگ آمد بجنگ آمد“ نہیں ہونے دیا۔ کسی ایک مخالف کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ ایسی ایسی سیاسی چال چلی گئی کہ آپ بے شک اختلاف کریں مگر آپ کو اعتراف بھی کرنا پڑے گا۔ آپ ان سیاسی چالوں کو بری چالیں تو کہہ سکتے ہیں مگر ناکام چالیں نہیں کہہ سکتے۔ یہ نعرہ لگا کہ اک زرداری سب پر بھاری۔ تو مذاق اڑانے والے خود مذاق بن گئے ہیں۔ زرداری سیاست اچھی نہیں ہے تو دوسرے بھی اس سیاست کے کھیل کا حصہ ہیں۔ آخر میں جاوید ہاشمی کے لئے علامہ اقبال کے دو شعر جو ڈاکٹر جاوید اقبال کے ہمسفر اور ہم عمر لوگوں کے لئے ہیں۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کا نام جاوید ہے۔ ....
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
ہمارے سیاسی منظر نامے میں ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں جو جرنیلوں اور ایجنسیوں کی پیداوار نہ ہو۔ یہ گملوں میں اُگے ہوئے درخت ہیں۔ ان کی چھاﺅں میں بسنے والے اور پھل کھانے والے مخصوص اور ذاتی لوگ ہیں۔ موروثی سیاست اور خاندانی حکومت نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ پارٹی لیڈر کو چھوڑیں کہ وہ صرف پارٹی لیڈر ہیں لیڈر نہیں۔ عام ممبران بھی اسمبلی کی رکنیت گھر سے باہر نہیں جانے دیتے اور بیورو کریٹس افسری کو صرف اپنے گھر میں اور اپنے دفتر کے اندر رکھتے ہیں۔ شریف برادران جاوید ہاشمی کے اس قلندرانہ مشورے پر عمل کریں تو وہ سرخرو ہوں گے۔ مگر چودھری نثار اور اس کے جیسے لوگ انہیں یہ نہیں کرنے دیں گے۔ وہ صرف انہیں سرشار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مدہوش ہونے اور مغرور ہونے میں فرق کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ نواز شریف کو بے عزت کرانے والا چودھری نثار ہے۔ بلیک میلنگ سے خود کو سینئر وزیر اور پھر اپوزیشن لیڈر بنوایا، فرینڈلی اور سرکاری اپوزیشن کے نعرے تخلیق کرائے۔
بے نظیر بھٹو کو شہید سب مانتے ہیں اور کون تھا جو اس کی موت پر رویا نہ ہو۔ خود نواز شریف پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں سے پہلے ہسپتال پہنچے تھے اور یہ اچھی سیاسی روایت تھی۔ مگر کیا اپنے طور پر پارٹی کا کوئی آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا۔ ن والوں کو جاوید ہاشمی کے عمران کے دھرنے میں جانے پر بھی اعتراض ہے۔ اب چودھری نثار نے عمران پر ایجنسیوں کے حوالے سے الزام تراشی کی ہے۔ یہ الزام درپردہ جاوید ہاشمی پر لگایا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ وہ خود ایجنسیوں سے رابطوں کے لئے مشہور ہے۔ اس کے لئے نواز شریف کی پسندیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایجنسیوں سے رابطے کے لئے بہت موزوں شخص ہے۔ ملک غلام سرور بھی ق لیگ کی حکومت میں وزیر تھا مگر اس کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے چودھری نثار کو کئی بار شکست فاش دی ہے۔ دیہاتی کھرے پن کے ساتھ اپنے لوگوں میں گھل مل کر رہنے والا سرور جاوید ہاشمی کو پسند کرتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اب جاوید ہاشمی کو ڈاکٹر جاوید ہاشمی کہنا چاہئے۔ شیخ رشید کی طرح وہ بھی مجید نظامی سے عقیدت رکھتا ہے۔ مجید صاحب کی شفقت دونوں کو حاصل ہے۔ سارے منجھے ہوئے سیاستدان زرداری کے سامنے حیران ہیں اور نواز شریف پریشان ہے۔ ہمارے ایک غیر سیاسی دانشور ڈاکٹر شبیہ الحسن نے ہمدردانہ انداز میں کہا کہ شریف برادران بالخصوص نواز شریف کرکٹ کے کھلاڑی ہیں اور صدر زرداری شطرنج کے کھلاڑی ہیں۔ دونوں کا کیا موازنہ اور کیا مقابلہ۔ اب چال چلی جا رہی ہے کہ شریف برادران کو صرف پنجاب تک مصروف رکھواور محدود کر دو۔ زرداری حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینے والے سیاستدان اور میڈیا کے لوگ تنگ آ گئے ہیں مگر انہیں صدر زرداری نے ”تنگ آمد بجنگ آمد“ نہیں ہونے دیا۔ کسی ایک مخالف کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ ایسی ایسی سیاسی چال چلی گئی کہ آپ بے شک اختلاف کریں مگر آپ کو اعتراف بھی کرنا پڑے گا۔ آپ ان سیاسی چالوں کو بری چالیں تو کہہ سکتے ہیں مگر ناکام چالیں نہیں کہہ سکتے۔ یہ نعرہ لگا کہ اک زرداری سب پر بھاری۔ تو مذاق اڑانے والے خود مذاق بن گئے ہیں۔ زرداری سیاست اچھی نہیں ہے تو دوسرے بھی اس سیاست کے کھیل کا حصہ ہیں۔ آخر میں جاوید ہاشمی کے لئے علامہ اقبال کے دو شعر جو ڈاکٹر جاوید اقبال کے ہمسفر اور ہم عمر لوگوں کے لئے ہیں۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کا نام جاوید ہے۔ ....
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر