پنجاب کی سیاست کے تین کرداروں کا ”انوکھا اتحاد“

 سٹی تحصیل فیصل آباد کو قومی اسمبلی کے چار اور پنجاب اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے فیصل آباد شہر کے یہی علاقے ہیں جو سابق میونسپل کارپوریشن کی حدود میں شامل ہیں۔ یہ علاقے 213 یونین کونسلوں پر مشتمل رہے ہیں۔ موجودہ انتخابی حلقوں میں این اے 82 سے این اے 85 تک قومی اسمبلی کے ان چار حلقوں میں پنجاب اسمبلی کے جو آٹھ حلقے شامل ہیں وہ پی پی 65 سے شروع ہوتے ہیں اور شہر سے پی پی72 شہر کا بلکہ ضلع فیصل آباد کا آخری صوبائی حلقہ ہے۔ پی پی65 کو اس لحاظ سے پیپلزپارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے پیپلزپارٹی کے سابق پارلیمانی لیڈر راجہ ریاض احمد گذشتہ دو الیکشنوں میں اس حلقہ سے کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی کا حصہ رہے ہیں۔ ان کے والد راجہ شیر محمد بار ایٹ لاءڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور جب خان عبدالولی خان نے جنرل محمد ضیاءالحق کے مارشل لاءکے نفاذ پر حیدر آباد جیل سے نجات حاصل کر کے اپنی سیاست کو اس وقت کے صوبہ سرحد سے باہر نکال کر پنجاب میں لانے کےلئے ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں رابطہ عوام مہم شروع کی تو راجہ شیر محمد بار ایٹ لاءاس کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ اس زمانے میں جھنگ سے بیگم عابدہ حسین بھی خان عبدالولی خان کی پارٹی میں شامل تھیں۔ راجہ ریاض احمد کے تایا زاد بھائی میجر(ر) سجاد اکبر کی آصف علی زرداری کے ساتھ اس زمانے سے دوستی تھی جب زرداری ابھی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے داماد نہیں تھے اور جب آصف علی زرداری کی بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی تو راجہ سجاد اکبر کو پیپلزپارٹی کا اس حلقہ سے پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ مل گیا اور ان کی اس کامیابی سے راجہ ریاض احمد کا پورا خاندان پیپلزپارٹی کا حصہ بن گیا۔ راجہ سجاد اکبر اس خاندان سے پنجاب اسمبلی میں پہنچنے والے پہلے شخص تھے لیکن انہیں سیاست کا پیشہ پسند نہیں آیا لہٰذا یہ خاندان چونکہ پیپلزپارٹی کی سیاست میں آ چکا تھا لہٰذا راجہ ریاض احمد نے سیاست کے پیشے میں آنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے والد راجہ شیر محمد بار ایٹ لاءنے راجہ ریاض احمد کا سیاسی عروج نہیں دیکھا لیکن آصف علی زرداری کے پیپلزپارٹی کا سربراہ بننے سے راجہ ریاض احمد کو ابھرنے کے بہت مواقع ملے۔ اگر الیکشن 2008ءمیں پنجاب پیپلزپارٹی کے سابق صدر میاں قاسم ضیاءاور سابق سیکرٹری جنرل رانا آفتاب احمد خاں اپنی نشستوں سے شکست نہ کھا جاتے تو الیکشن 2002ءمیں بننے والی پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رہنے کی بناءپر میاں قاسم ضیاءاور رانا آفتاب احمد خاں سے پیپلزپارٹی پنجاب کی ”چودھراہٹ“ چھیننا ممکن نہ ہوتا۔ قاسم ضیاءایک ضمنی الیکشن میں پی پی59 سمندری سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے لیکن اس وقت تک راجہ ریاض احمد مسلم لیگ(ن) کے ساتھ پیپلزپارٹی کی حکومت میں سینئر وفاقی وزیر بن چکے تھے۔ وہ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر بھی تھے لہٰذا مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے میاں قاسم ضیاءکو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا چیئرمین بنا کر پارٹی کے امور سیاست سے الگ رکھتے ہوئے راجہ ریاض احمد پر پارٹی قیادت کے اعتماد کو قائم رکھا اور جب مسلم لیگ(ن) نے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں مزید شریک اقتدار نہیں رکھا۔ پیپلزپارٹی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی تو پنجاب کے اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ(ق) کے چوہدری ظہیرالدین خاں نے راجہ ریاض احمد خاں کےلئے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا منصب خالی کر دیا۔ راجہ ریاض احمد الیکشن 2013ءمیں پی پی65 سے ایک مرتبہ پھر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے الیکشن 2002ءمیں حاجی بشارت علی منج کو ان کے مقابلے میں اتارا تھا۔ متعدد دوسرے امیدوار بھی مقابلے میں تھے لیکن راجہ ریاض احمد نے یہ انتخابی معرکہ جیت لیا تھا۔ دراصل راجہ ریاض احمد نے جنرل مشرف کے دور میں ہونے والے پہلے بلدیاتی الیکشن میں ضلع فیصل آباد کے ناظم اور نائب ناظم کے پینل میں ضلعی ناظم کا امیدوار بن کر اس وقت کے حکومت کے حمایت یافتہ پینل(جو چوہدری زاہد نذیر اور چوہدری افضل ساہی پر مشتمل تھا) کے ساتھ کانٹے دار مقابلہ کر کے اپنے سیاسی قدکاٹھ میں بہت زیادہ اضافہ کر لیا تھا۔ راجہ ریاض احمد کو الیکشن 2013ءمیں شکست دینے کے لئے مسلم لیگ(ن) کو اس حلقہ میں انہی کے قدکاٹھ کی کسی شخصیت کو مقابلے میں اتارنے کی ضرورت تھی۔ مسلم لیگ(ن) یہ کام سابق میونسپل کارپوریشن کے دو مرتبہ میئر رہنے والے چوہدری شیرعلی کو ان کی ضعیف العمری کے باوجود انتخابی دنگل میں اتار کر بہت آسانی سے کر سکتی تھی۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت سابق وفاقی وزیر راجہ نادر پرویز کو پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت بننے کی صورت میں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کر کے ان کو پی پی65 میں راجہ ریاض احمد کی شکست کےلئے الیکشن میں اتار سکتی یا پھر سابق صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ کو پی پی70 کے ساتھ ساتھ پی پی65 سے انتخابی دنگل میں اتار کر ایک کانٹے دار انتخابی معرکے کا اہتمام کر سکتی تھی لیکن پیپلزپارٹی کے پی پی72 کے شیخ محمد اسلام، جن کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے بعد ان کا ٹکٹ واپس لے لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے شیخ محمد اسلام نے ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا ہے کہ راجہ ریاض احمد اور رانا ثناءاللہ پس پردہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور وہ بظاہر اپنے اپنے بیانات میں ایک دوسرے کی خوب خبر لیتے ہیں لیکن ان دونوں میں ایک دوسرے سے کام نکلوانے کے لئے ہمیشہ رابطہ رہا ہے بلکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ضلع فیصل آباد کے پنجاب مسلم لیگ(ق) سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر اور پنجاب اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر چوہدری ظہیرالدین خاں بھی ان دونوں کے ساتھ سیاسی وفاداریوں سے بالاتر ہو کر ”باہمی مفادات معاہدہ“ میں شامل ہیں اور فیصل آباد میں راجپوت کمیونٹی کی ایک معروف سیاسی شخصیت ان تینوں کے اس معاہدے میں غیراعلانیہ ثالث ہے۔ شیخ محمد اسلام سے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پی پی72 کا پارٹی ٹکٹ واپس لے کر این اے 85 میں پیپلزپارٹی کے الیکشن 2008ءکے ٹکٹ ہولڈر و امیدوار شکیل انصاری مرحوم کی بیوہ نازیہ شکیل کو دیئے جانے پر باقاعدہ پریس کانفرنس میں شیخ محمد اسلام نے الزام لگایا ہے کہ راجہ ریاض احمد نے رانا ثناءاللہ کے ذریعہ پی پی65 کا مسلم لیگ(ن) کا پارٹی ٹکٹ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے سابقہ سیاسی رہنما محمد الیاس انصاری کو محض اس لئے دلوایا ہے تاکہ راجہ ریاض احمد الیکشن 2013ءمیں آسانی کے ساتھ کامیاب ہو سکیں اور اسکے بدلے راجہ ریاض احمد نے پی پی70 سے پیپلزپارٹی کے فیاض سیلا کو ٹکٹ دلوایا ہے جو کمزور امیدوار ہیں جو رانا ثناءاللہ کے مدمقابل ہیں۔ پی پی 65 سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار الیاس انصاری جنرل پرویزمشرف کے پہلے انتخابات میں اس حلقہ انتخاب میں شامل اپنی یونین کونسل کے ناظم کا الیکشن ہار گئے تھے لیکن بعد میں پیپلزپارٹی کے چوہدری ممتاز علی چیمہ نے سٹی تحصیل فیصل آباد کے لئے انہیں تحصیل ناظم اور نائب ناظم کے پینل میں نائب ناظم کے امیدوار کے طور پر اسلئے شامل کر لیاتھا کہ شہر میں موجود انصاری برادری جس کی اکثریت این اے 85 کے علاقوں میں رہتی ہے کے ووٹ بینک کے لئے یو سی ناظم کا الیکشن ہارنے کے باوجود اپنے ساتھ نتھی کر لیا تھا۔ چونکہ چوہدری ممتاز علی چیمہ نے یہ مقابلہ سرکاری حمایت یافتہ پینل، اس وقت کے ایوان صنعت و تجارت کے صدر میاں محمد شفیق اور ان کے نائب ناظم کے امیدوار ڈاکٹر خالد بلوچ کو شکست دے کر جیت لیا تھا لہٰذا الیاس انصاری بھی تحصیل نائب ناظم بن گئے تھے۔ پی پی65 کی انصاری برادری ماضی میں شکیل انصاری مرحوم کے ساتھ رہی ہے۔ راجہ ریاض احمد نے پی پی72 میں نازیہ شکیل کو پیپلزپارٹی کا ٹکٹ دلوایا ہے جس سے پی پی65 میں انصاری برادری کا ووٹ راجہ ریاض احمد کو ملے گا۔ راجہ ریاض احمد نے اس خواہش کے پیش نظر پی پی72 میں نازیہ شکیل انصاری کو ٹکٹ دلوایا ہے۔

ای پیپر دی نیشن