پشاور /لندن (این این آئی)کالعدم تحریک طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ سے رابطہ ہو چکا ہے، ملاقات کیلئے وقت اور جگہ کا تعین کیا جارہا ہے، طالبان قیادت جب بھی بلائے گی روانہ ہو جائیں گے، فریقین کے مابین شکایات کے خاتمے کیلئے سب کمیٹی قائم کی جا رہی ہے، مذاکرات کے آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، مسئلہ دس بارہ سال پرانا ہے، بہت پیچیدگیاں ہیں، دونوں طرف سے مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے کا عزم ایک مثبت پہلو ہے، یقینا مذاکرات کے ذریعے ہی ملک میں امن قائم ہو گا۔ ایک انٹرویو میں پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اب طالبان کے جواب کا انتظار ہے۔ حکومتی کمیٹی نے ا ن سے ملاقات کے لئے طالبان سے رابطہ کرنے کے لئے کہا تھا۔ پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ طالبان نے مذاکرات پر مشاورت کیلئے ایک دو روز مانگے ہیں۔ فریقین کو مزید پیش رفت کیلئے تفصیلی مطالبات پیش کرنے چاہئیں۔ 23 اپریل کو وزیر داخلہ نے طالبان شوریٰ سے رابطے کا ٹاسک دیا تھا کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر مولانا یوسف شاہ کا طالبان سے رابطہ ہو گیا ہے طالبان کی جانب سے دو دن میں ملاقات کے حوالے سے جواب مل جائے گا اور جگہ کا تعین کر دیا جائیگا۔ اس سے قبل بھی مذاکرات فاٹا میں ہوئے تھے اور اس بار بھی حکومتی اور طالبان رابطہ کمیٹی طالبان شوریٰ سے قبائلی علاقے میں ملے گی جگہ کا تعین ایک دو دن میں ہو جائیگا پروفیسر ابراہیم کے مطابق مذاکرات کا ایجنڈا امن ہے مذاکرات کیلئے جنگ بندی ضروری ہے اور دونوں فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کر رہے ہیں۔جنگ بندی عارضی ہو گی تاہم اسے مستقل کرنے کی خواہش ہے۔ دہشتگردی کے کچھ واقعات ہوئے جس کے بعد فوج کی جانب سے فضائی کارروائی کی گئی۔ انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ مذاکرات کے آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ ۔ انہوں نے کہا کہ ایک وہ وقت تھا جب ملک کے کئی شہروں میں کئی دھماکے ہوتے تھے تاہم اب اکا دکا کارروائیاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعات افسوسناک ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ یہ واقعات مکمل طور پر ختم ہوجائیں اور ملک میں امن قائم ہو جائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ مذاکراتی عمل میں فوج کی شمولیت ضروری نہیں، مفید سمجھتے ہیں‘ اگر فوج کے تحفظات ہیں تو انہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بننا چاہئے۔ مذاکراتی عمل میں فوج کی شمولیت ضروری نہیں بلکہ مفید سمجھتے ہیں۔ دونوں مذاکراتی کمیٹیوں کی طالبان شوریٰ سے ملاقات ایک دو دن میں ہوگی۔ حکومت نے طالبان کی فہرست سے ابھی تک کوئی قیدی رہا نہیں کیا حکومت کی طرف سے اگر قیدیوںکی رہائی شروع ہوئی تو طالبان پر بھی دبائو ڈالیں گے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہماری ملاقات ہونی چاہیے تاکہ مذاکرات آگے بڑھیں فوج کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنے سے نتیجہ مفید ہو گا، طالبان نے مشاورت کیلئے دو دن مانگے ہیں، دونوں کمیٹیوں کی طالبان شوریٰ سے ملاقات دو دن میں ہو سکتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (س )کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ میڈیا کے بغیر ملک زندہ نہیں رہ سکتا اور فوج کے بغیر تو ملک کا تصور ہی نہیں ہے۔ ایک انٹرویو میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ٹی وی اینکرز اس موضوع پر بحث مباحثہ نہ کریں، یہ وقتی چیز ہے جو انشاء اللہ جلد ختم ہوجائے گی۔ میڈیا بھی ریاست کا ایک ستون ہے اور اگر ایک ستون بھی ہلایا جائے تو فوج، پارلیمنٹ اور حکمرانوں کیلئے نقصان دہ ہوگا۔میڈیا سے گفتگو اور تقریب سے خطاب میں پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ ائیر چیف مارشل کا طالبان کے خلاف آپریشن کا اعلان انتہائی افسوسناک ہے۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ سلالہ چیک پوسٹ پرحملہ کے وقت ائیر چیف اور ان کی پاک فضائیہ کہاں تھی۔ اسلام دشمن قوتو ںکے خلاف اُٹھنے کی بجائے اپنے عوام پر اسلحہ کا استعمال ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا طریقہ تھا جو آج بھی حکمرانوں کے اندر موجود ہے۔ دشمن نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے طالبان اور فوج کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہیں۔آپریشن کسی مسئلے کا حل ہے نہ خود کش حملوں سے شریعت نافذ ہو سکتی ہے۔ حکومت اور طالبان دونوں جنگ بندی کریں۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں۔ معصوم بچوں کو قتل کرنا بربریت ہے۔ حکومت ملوث عناصر کو فوری طور پر گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔ انہوں نے محمد بدیع سمیت اخوان کے 689کارکنوں کو سزائے موت دئے جانے کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے انصاف کا خون قرار دیا۔