دنیا دیکھتی رہ گئی چینی صدر پاکستان سے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت دے کے چلے بھی گئے،،بھارت کو تو ایسا لگتا ہے جیسے سانپ سونگھ گیا،انڈین میڈیا تو سکتے کے عالم میں لگتا ہے ٹائمز آف انڈیا، اکنامک ٹائمز انڈیا ٹوڈے کوئی بھی بول نہیں پا رہا، چینی صدر کے کامیاب دورے کا کریڈٹ جہان مسلم لیگ کی حکومت کو جاتا ہے وہیں یہ کریڈٹ پاکستانی میڈیا کو بھی جاتا ہے جس نے اس دورے کی کامیابی کیلئے انتھک محنت کی۔ ایسے ہی ماحول میں آزاد چین وجود میں آیا،،، پاکستان اور چائنہ کے مابین گہرے دوستانہ اور کاروباری تعلقات ہیں جن کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جن کا ایک راستہ کاروباری شراکت اور دو طرفہ مفاد کے تحت منصوبوں کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کی کوششوں کا ایک عملی ثبوت چائنا پاکستان اقتصادی زینہ ہے ۔ یہ منصوبہ جس کو ”سی پی ای سی “ ۔چائنا پاکستان اکنامک کا ریڈور کا نام دیا گیا ہے کی حوالوں سے اہم اورثمر آور حیثیت کا حامل ہے ۔ گذشتہ چند برس سے عمل میں لائے جانےوالے اس منصوبہ پر پاکستان میں مختلف حوالوں سے بات ہورہی ہے ۔ کچھ اداروں کو اس پر اعتراض ہے مگر اسکی نوعیت انفرادی اور وقتی ہے لہذا چاہیے کہ اس منصوبے کے اصل مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے مفاد عامہ کی بنیاد پر فیصلے کئے جائیں ۔چین اقتصادی کوریڈور کو ایک نظر دیکھا جائے ہمیں احساس ہوگایہ منصوبہ محض ایک راہداری ایک شاہراہ ایک ریلوے لائن کا نام نہیں جوکہ صرف ایک گزرہ گاہ کی سی حیثیت رکھے گا بلکہ اسکے اصل مفاد ات اور اس سے حاصل ہونیوالے امکانات پر نظر رکھنی چاہیے ۔ اس کثیر المقامد منصوبے کے تحت گوادر کی بندر گاہ سے جنوبی پاکستان اور شمال مغربی چائنا کو شاہراہوں ، ریلوے لائن اور آپٹک فائبر کی مدد سے ملایا جائیگا ۔ آپٹک فائبر تیل اور گیس کی رسد کیلئے ایک بہترین گزر گاہ کا کام کریگی ۔ یہ راہداری دراصل کاشغر سے بلند و بالا قرا قرم کی مغرور چوٹیوں کے سینے چاک کرتا ، خیبر پختونخوا کے سبزے سے لہلاتے پہاڑوں پر کمند ڈالتا ، وادی سندھ کے باسی سندھیوں کے کئی شہروں سے ہم مجلسی کرتا ، پنجاب کے کھیتوں کی خوشبوں اپنے دامن میں رچاتا ، بلوچستان کی ساحلی پٹی گوادر کے مقام پر منزل مقرر کریگا ۔ لگ بھگ 45بلین ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ ماہرین کی رائے کے مطابق 2030ءمیں مکمل ہوجائیگا ۔پاک چین اقتصادی کوریڈور کی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ راستے محض چائنہ کے ساتھ تجارت کا مرکز نہیں رہیں گے بلکہ مشرق وسطی سے افریقہ تک ان راہداریوں کے ذریعے لین دین کی جاسکے گی ۔ اسکے ساتھ ساتھ انہیں ٹرینوں کی مدد سے افغانستان اور ایران کے ساتھ کاروباری روابط کا آغاز ہوسکے گا ۔ آئندہ دو برس کے دوران بین الاقوامی ہوائی اڈے کا قیام گوادر کو دنیا کے تمام ممالک سے منسلک کرنے کا اہم قدم ثابت ہوگا ۔ اسکے علاوہ 13سو کلو میٹر تک شاہراہ قراقرم کی توسیع ملک کے بہت سے شہروں کے درمیان نہ صرف فاصلوں کی طولانی کو سمیٹے گی بلکہ نئی اقتصادی منڈیوں کے قیام سے روز گار کے مواقع پیدا ہونگے۔ سفر آسان ہونے کےساتھ کاروباری ربط بڑھے گا جو خطے میں درمیانے طبقے کے افراد کیلئے روزگار کی نئی امید کی کرن لے کرآئیگا۔ اس منصوبے کے تحت گوادر ، پنجگور ، جیکب آباد ، کوہلو ، لورالائی ، ڈیرہ غازی خان ، راجن پور ، کشمور ،تربت ، بھکر ، ایبٹ آباد ، گلگت سے گزرے گی اوراضلاع میں کئی حوالوں سے فائدہ کا سامان مہیا کرےگی ۔اسی سب کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ یہ منصوبہ صوبہ بلو چستان کی مکمل محرومی کا ازالہ کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ اس کا اثر صوبہ بلوچستان کی ساحلی بازو پر ہوگا اور باقی سارا صوبہ انہیں مسائل کا شکار رہے گا لیکن اس حقیقت سے اس شراکتی منصوبے کی اہمیت اور افادیت میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ بلوچستان کا مسئلہ وہاں کی سیاسی قیادت قبائلی عمائدین ، سول تنظیموں کے مل بیٹھنے کے بنا حل نہیں ہوسکتا اور اس سلسلے میں الگ سے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
اقوام کی زندگی میں کامیابیاں بار بار نہیں آتیں”ہاں جو اقوام ان کامیابیوں کو اپنے دامن میں پناہ دے دیتے ہیں تو انکی نسلیں صدیوں اس سے فیض اٹھاتی ہیں،،۔