محمددلاور چودھری
”مغرب میں اسلام کو کبھی صحیح طور پر نہیں سمجھا جا سکا“ اکثر مسلمان مورخین اور دانشوروں کی اس رائے کے پیچھے پوری ایک تاریخ چھپی ہے۔
مغرب میں اسلام کو غیرحقیقی انداز سے دیکھنے اور جانچنے کی ابتدا غالباً اس وقت ہوئی جب اسلام عرب قبائل سے نکلا اور اس کا سامنا آرتھوڈکس رومن امپائر سے ہوا۔ مسلمانوں نے مشرق وسطیٰ میں کئی علاقے فتح کئے۔ آرتھوڈکس رومن امپائر (بازنطینی سلطنت) کو ”دیس نکالا“ دیا تو پورے یورپ میں ایک سراسیمگی پھیل گئی۔ ردعمل میں مسلمانوں کے ساتھ طرح طرح کے فرضی قصے نتھی کئے جانے لگے۔ یہ باتیں مشہور کی جانے لگیں کہ مسلمان تشدد پسند ہوتے ہیں اور اپنے دین کو پھیلانے کیلئے بھی یہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی فاتح کی حیثیت سے سپین آمد اور پھر صلیبی جنگوں نے مغرب میں مسلمانوں کے اصل تشخص کو مزید مسخ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جیسا کہ ہوتا ہے یقینا اس کے سیاسی مقاصد بھی تھے۔
اس موقع پر ایسا ادب ترتیب دیا گیا جو مسلمانوں کو پوپ کا دشمن اور انتہائی ناقابل قبول لوگ قرار دیتا تھا اور اس ادب کو یورپ میں جذباتی بنیادوں پر انتہائی پذیرائی بھی ملی اس کی ایک مثال دانتے الیگری کی ”دی ڈیوائن کامیڈی“ ہے۔ ادب کے ساتھ ساتھ سخت اور حقائق کے منافی نقطہ نظر رکھنے والے مورخین بھی میدان میں آ گئے اورخوب ”داد“ پائی۔ ان میں ”ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن امپائر“ کا مصنف ایڈورڈ گبن اور کتاب ”دی لائف آف محمد“ کا لکھنے والا ولیم میور کسی حد تک نمایاں ہیں اور یہ سلسلہ ”تہذیبوں کے تصادم“ کے لکھاری سیموئل پی ہٹنگٹن اور مشہور امریکی مورخ برنارڈ لیوس کی صورت میں ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ (کتاب Clash of Civilizations کا خانہ مضمون کی شکل میں پہلے برنارڈ لوئیس نے ہی لکھا تھا)۔
دوسری طرف مسلمان جب سپین کے حکمران بنے تو انہوں نے گھٹن زدہ یورپی ماحول میں کافی حد تک ایک معتدل ماحول قائم کر دیا۔ اس ماحول میں علم کی خوشبو چارسُو پھیلی ہوئی تھی۔ یہ خوشبو وہ خوشبو تھی جسے مسلمانوں نے ہندوستان کے ٹیکسلا، ایران کے جندی شاہ پور، مغرب کے یونان، مشرق وسطیٰ کے شام اور مصر کے سکندریہ میں دفن کتابوں کی راکھ سے کشید کیا تھا اور اسے اپنے فکروعمل کے ذریعے مزید جِلا بخشی تھی۔
اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے یورپ میں بلاتفریق مذہب و ملک علم کے پیاسے جوق در جوق ہسپانیہ آنے لگے اور پیاس بجھا کر اپنے اپنے ”تاریک“ علاقوں میں جا کر علم کی شمع جلانے لگے اور یورپ میں نشاة ثانیہ کا عمل شروع ہو گیا۔ اس عمل کے نتیجے میں یورپ پاپائی جبر کے ماحول سے باہر آیا اور فہم و ادراک نے جذباتیت کی جگہ لے لی اور یورپی اقوام علمی طور پر خوابیدگی کا شکار ہوتے ہوئے مسلمانوں سے بھی کافی آگے نکل گئیں۔ ہرچیز کو منطق اور شعور کی بنیاد پر پرکھا جانے لگا اس نئے ماحول میں ڈبلیو ٹی آرنلڈ جیسے دانشور بھی پیدا ہونے لگے جنہوں نے "The Preaching of Islam" جیسی کتاب لکھ کر بتایا کہ درحقیقت اسلام تلوار نہیں بلکہ ساری دنیا میں اپنے حسن اخلاق سے پھیلا۔ اسی طرح رابرٹ بریفالٹ جیسے مورخ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے "The Making of Mankind " جیسی نادر کتاب تخلیق کرکے بتایا کہ یہ غلط ہے کہ یورپ کی نشاة ثانیہ 14ویں صدی سے شروع ہوئی بلکہ یورپ کو علمی اور شعوری طور پر یونان کے بعد دوسرا جنم مسلمانوں کے سپین نے دیا۔ اسی طرح ول ڈیورانٹ جیسے قدآور مورخین نے بھی تسلیم کیا کہ یورپ کے دانشور اور سائنسدان مزید آگے تک اس لئے دیکھ پائے کہ وہ ”مسلمان جنات“ کے کندھوں پر کھڑے تھے۔ (The Age Of Faith) یہ سلسلہ بھی موجودہ دور تک جاری ہے۔ عصر حاضر میں ایڈورڈ سعید اور جان ایسپوزیٹو جیسے مصنفین بھی ابھرے جنہوں نے استشراق (Orientalism)اور اسلام کو مغرب سے مزید اچھے انداز میں متعارف کرا دیا۔Orientalism) (Understanding Islam/اس ساری صورتحال میں موجودہ دور کو مکمل طور پر نہیں تو پھر بھی کافی حد تک یورپ میں اسلام، روحانی قدروں اور خواتین کے اصل مقام کے حوالے سے نظرثانی کا دور کہا جا سکتا ہے۔ کتاب ”ایم ٹی وی سے مکہ تک“ اسی نظرثانی کے دور کی ایک شاندار مثال ہے۔
انتہائی قابلِ احترام دانشور سید حسین نصر اس کتاب کے بارے میں بجا طور پر کہتے ہیں کہ ”یہ صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی طور پر بھی ایک طویل سفر ہے۔کرسٹیان بیکر کے اس سفر کی یہ حیرت انگیز روداد اسلام اور مغرب کے درمیان دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کیلئے بھی باعث دلچسپی ہو گی جو آج کے ماڈرن ازم کے غلبے میں اس غیرمقدس دنیا میں زندگی کے روحانی معنی کی تلاش میں ہیں“۔
مغرب اسلام کے بارے میں کیا سوچتا آیا اور کیا سوچ رہا ہے صدیوں پر محیط اس داستان کو اگر کوئی ایک کتاب میں پڑھنا چاہتا ہے تو یقینا اسے یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ ”ایم ٹی وی سے مکہ تک“ چکاچوند کر دینے والی بناوٹی روشنیوں کی حامل مادیت پرست مغربی تہذیب میں جنم لینے اور گلیمرو شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی ایک ایسی خاتون کرسٹیان بیکر (اینکر ایم ٹی وی) کی کہانی ہے جو سب کچھ اسی تہذیب کو سمجھ بیٹھی تھی لیکن پھر بقول اس کے اس پر آشکار ہوا کہ یہ حقیقت نہیں بلکہ حقیقت تو اس سے کہیں دُور اس کی منتظر ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس کے سامنے خواتین کے استحصال کی حامل اور روحانیت سے ناآشنا مادیت پرست بناوٹی روشنیاں ماند پڑتی ہوئی واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں اور خواتین کا اصل اور باوقار مقام نمایاں ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا مقام جس میں وہ وقار کے ساتھ معاشرے کی تعمیروترقی میں برابر کی حصہ دار تصور کی جاتی ہیں۔ کرسٹیان بیکر اپنی اس کتاب میں رقمطراز ہیں”بہرحال جب عمران (تحریک انصاف کے سربراہ) نے مغربی ذرائع ابلاغ میں عورت کی نمائش پر مبنی رویہ پر تنقید کی تو میں زیادہ جزبز نہ ہوئی جب ہم کار میں بیٹھ کر روانہ ہوتے اور ہماری نظروں سے ایک بہت بڑا اشتہار گزرتا جس میں نیم برہنہ خواتین کو کار کے ٹائروں سے لے کر مردوں کیلئے خوشبو کی فروخت کیلئے نمایاں انداز میں دکھایا جاتا تو عمران اس پر اپنی تلخی اور نفرت کا اظہار کرتا۔ وہ اس قسم کی اشتہاربازی کو عورتوں کی توہین اور تحقیر قرار دیتا جو اپنے جسم کو اپنے استحصال کیلئے یوں استعمال کرنے کی اجازت دے دیتی ہیں۔ ”یہی وجہ ہے کہ اسلام خواتین کو شائستہ اور مہذب لباس پہننے کی ہدایت کرتا ہے تاکہ انسان کی حیثیت سے ان کا احترام اور وقار برقرار اور محفوظ رہے“۔
یہ تحریر بتاتی ہے کہ کرسٹیان بیکر ہر اس مغربی عورت کی نمائندہ ہے جو ایک ایسے معاشرے کی متلاشی ہے جس میں عورت کو قابل احترام ماں، نیک سیرت بہن، آبرومند بیٹی، وفاشعار بیوی کے طور پر احترام دیا جائے اور آزادی کے نام پر اسے قابل فروخت جنس بنانے کی بجائے سوسائٹی کی ترقی کیلئے اس کے برابر کے کردار کو حقیقی طور پر تسلیم کیا جائے۔ (سیمون دی بوا نے اپنی کتاب The Second Sexمیں بالکل صحیح لکھا ہے کہ قدرت نے عورت کو کمزور پیدا نہیں کیا تہذیب (مردوں کی) نے کمزور بنایا ہے)ایک ایسی سوسائٹی جس کی چکاچوند کے پیچھے کاروباری مادیت پرستی اور حصولِ منافع کی بے چینی اور ہیجان نہ چھپا ہو بلکہ جو انمٹ سکون اور اطمینانِ قلب دینے والی روحانیت سے مزین ہو کیونکہ یہی زندگی کا اصل ہے۔
اصل کتاب انگریزی زبان میں ہے جس کا ترجمہ فرخ سہیل گوئندی جیسے ”سخن فہم“ دانشور نے کرایا ہے۔ گوئندی اس سے قبل بھی بہت اہم کتابوں جن میں ہاورڈزِن کی کتاب ”پیپلز ہسٹری آف یونائیٹڈ سٹیٹس“ شامل ہے کے تراجم کرا چکے ہیں۔ ان کا ادارہ اردو کے قارئین کی بڑی اچھی خدمت کر رہا ہے جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔
جمہوری پبلی کیشنز 2۔ایوانِ تجارت روڈ لاہور کی طرف سے شائع کی جانے والی کتاب ”ایم ٹی وی سے مکہ تک“ کی قیمت 990 روپے ہے۔ کاغذ درمیانہ، جلد عمدہ ہے۔
\