آجکل پاکستان کے طول و عرض میں سب سے زیادہ سنائی دینے والا لفظ ’کرپشن‘ ہے جس کی بیخ کنی کیلئے ہر فرد فکر مند نظر آتا ہے۔معصوم و استحصال زدہ لوگ ہوں یا،چھوٹے کرپٹ،بڑے کرپٹ اور مہا کرپٹ ،سب کے چہروں پر خطابت کے وقت یکساں تاثّرات دکھائی دیتے ہیں۔کبھی کبھی تو یوں لگتاہے جیسے کرپشن کسی اور سیارے کانام ہے جہاںکی کرپٹ مخلوق نے ہم پر حملہ کر دیا ہو اور اگر ہم نے اسطرح سے انکا مقابلہ نہ کیا تو وہ ہمیں بھی کرپٹ کر جائینگے۔ہماری قوم کے سر پر کئی باروقفے وقفے کیساتھ یہ خطرات منڈلائے مگرہم اپنی ڈگر پر قائم رہے۔قائداعظم نے بھی اکہتر سال پہلے اسکا اظہار فرمایا تھا۔6مئی 1945کو انہوں نے کہا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں میں اس مرض کے جراثیم کافی حد تک پائے جاتے ہیں۔خاص طور پر پڑھے لکھے طبقہ میں، جو اس معاملے میں اخلاقی قدروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔پھر 11اگست 1947کو پہلی قانون ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے چار نقاط پر زور دیاجن پر فی الفور گرفت ضروری تھی۔ (1)لاء اینڈ آرڈر (2)رشوت (3) بلیک مارکیٹنگ (4)اقرباء پروری ۔ان چاروں کا حاصل جمع کرپشن ہی بنتا ہے۔گویا ہمارے ہاں کرپشن کی تاریخ بھی ہماری قومی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے۔ عموماً کرپشن کو ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیاجاتا ہے۔ حالانکہ وقت کیساتھ ساتھ اس میں کئی اور عوامل نے شامل ہوکر اسکی ہیت ہی بدل ڈالی ہے۔ اس منفی ارتقاء کا خاکہ کچھ اسطرح بنتا ہے۔
پڑھے لکھے اور مقتدر طبقے کی کرپشن نے سب سے پہلے نا انصافی کو جنم دیا۔وطن عزیز کے پہلے 9سال تک آئین ہی نہ بننے دیا گیا جسکے ذریعے سے آزادی کی نعمت پانے والے شہریوں سے بنیادی حقوق کا شعور تک چھین لیا گیا۔ریاستی طاقت افراد کے گرد جمع ہوتی چلی گئی چاہے وہ سیاست سے تعلق رکھتے تھے، بیوروکریسی یا فوج سے۔کوئی قانون بنا بھی تو اسکا واضح مقصد اپنے انفرادی یا گروہی تسلط کو مضبوط کرنا تھا نہ کہ عوام کی فلاح اور ترقی کی بنیاد رکھنا۔ آزادی کی تگ و دو کرنے والوں کو پھر سے غلامی کی طرف مائل کیاجانے لگا اور یہ سلسلہ کچھ نشیب و فراز کے ساتھ آجتک جاری ہے۔
ان حالات میں جہاں عالمی سطح پرانسانی حقوق کی آگہی بڑھتی جارہی تھی مقتدر طبقے نے اس کا وزن محسوس کرنے کی بجائے ماضی کے ہتھکنڈوں سے ہی عام آدمی کو سرنگوں کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ حکمرانی کی پالیسیاں عوامی جذبات کو نظر انداز کر کے بنائیں جس سے سوسائٹی میں انتشار پیدا ہوگیا۔کچھ نے آداب ِ غلامی کو اپنا لیا اور کچھ اپنے اندر لاوا ابالتے رہے۔ایسا معاشرہ ہر طرح کے فکر کو اپنے اندر جگہ دے دیتا ہے اور جب گروہ مختلف فکروں سے وابستہ ہو جائیں تووہ اپنا امتیاز قائم رکھنے کیلئے تشدّد اور انتہا پسندی کا سہارا لیتے ہیں۔پوری دنیا ئے اسلام میں یہی کچھ ہوا جس سے امن عالم کا مذہب اسلام دہشتگردی سے منسوب ہو کر رہ گیا۔
دہشتگردی کے ماحول میں باہمی اعتماد جاتا رہتا ہے اورعسکریت اخلاقیات سے اونچی چلی جاتی ہے ۔ اس عسکریت کیلئے جو مال و دولت درکار ہوتی ہے وہ کوئی حق حلال کی کمائی سے تو آ نہیں سکتی۔لہٰذااس کیلئے اپنائے گئے طریقے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ تین چیزیں ابھر کر سامنے آ جاتی ہیںایک ظلم ،دوسری کرپشن اور تیسری انفرادیت۔ جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت تقریباًہر ایک کی انفرادی ذمہ داری بن جاتی ہے۔وہ ظلم سہہ کر گذارہ کرے،بھتہ ادا کر کے یابغاوت کر کے اس ذمہ داری کو پورا کرلے۔تینوں میں سے کوئی ایک بھی دیر پامثبت نتائج کی حامل نہیں ہو سکتی۔ پھرجب کافی سارے لوگ اسطرح زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہوتے ہیںتو ان میں فطری طور پر ایک اجتماعی ایڈ جسٹمنٹ ہو جاتی ہے۔وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں اور غیر قانونی کاموں کو اچھی طرح پہچان کر بھی باہم تعاون کرتے ہیں۔ہمارا معاشرہ ٹھیک اسی حالت میں ہے۔ قانون کو اٹھائیں،اخلاقی قدروں کو جھنجھوڑیں، مقتدر لوگوں کو انکی ذمہ داریاں بتانے کی کوشش کریں یا انسانیت اور اپنے حقوق کے نام پر کچھ چاہیں۔سب بے سود رہیگا کیونکہ کمپرومائز ہی سکہ رائج الوقت بن چکا ہے۔کمپرومائزڈ سوسائٹی کا فارمولہ کچھ یوں بنتا ہے:
(کرپشن +طاقتور کی بے حسی+کمزور کی بے بسی)xتسلیم=کمپرومائزڈ سوسائٹی
تقریباًگذشتہ چار دہائیوں سے ایک بھی ایسا حکمران نہیں آیا جس پر کرپشن کا الزام نہ ہو مگر سوسائٹی نے بغیر کسی تحقیق کے انہیں تسلیم کیا۔اور اب اس سوسائٹی کا سب سے نمایاں انڈیکیٹر ہی’’ گناہ کو دیکھ کر بھی عذرِ گناہ کو تسلیم کرناہے‘‘۔ حالیہ دور کی چند مثالیں امید ہے میری تھیوری کو ثابت کر سکیں گی۔
1۔ ملک میں بہترین ہسپتالوں کی موجودگی میں ہمارے قائدین کا چیک اپ قوم کے خرچ پر بیرونِ ملک ہی ہوتا ہے۔سب سے پہلے زرداری صاحب گئے۔ بظاہر صحت ٹھیک ، زبان و بیان درست،ہر لحاظ سے مستعد۔ مگر ابھی تک انہیں کچھ ایسے امراض لاحق ہیں کہ ڈاکٹروں نے انہیں پاکستان کے سفر سے روک رکھا ہے۔ قوم نے اسے درست تسلیم کرلیا ہے۔اسکے بعد مشرف صاحب چھلانگیں لگاتے دبئی اترے اور اب پتہ نہیں ان کا کہاںکہاں چیک اپ ہو رہا ہے۔بہر حال قوم نے اس ’حقیقی‘ مرض کو تسلیم کررکھا ہے۔2۔ ماڈل گرل ایان کو غیر قانونی پروٹوکول کیساتھ ایک سابق اٹارنی جنرل اور گورنر کی سُپر منطقی وکالت فراہم کی گئی ۔قوم نے بسر و چشم تسلیم کر لیا۔ 3۔ جن لوگوں کے نیچے دو کروڑ کی گاڑی ہو ،ہاتھ میں دوکروڑ کی گھڑی ، اتنی ہی قیمتی انگوٹھی اور شاہانہ طرز ِزندگی ہو۔مگرگوشواروں کیمطابق وہ کچھ ملکیت نہیں رکھتے۔ توقوم کو تسلیم ہے۔4۔سینکڑوں لوگوں کے قاتل گرفتار ہو جانے پر جو انکشافات کرتے ہیںاس سے پتہ چلتا ہے کہ سوسائٹی نے انہیں کئی سال اپنی آغوش میں پالا ہے۔5۔ شہرئہ آفاق حلقہ NA-122کا ضمنی انتخاب ہوا۔کسی نے خرچے کا حساب ڈیڑھ دو ارب روپے لگایا تو کسی نے 80کروڑ۔مگر آئین کے حق میں کسی نے بھی کوئی سوال نہ اٹھایا۔گویا مخالفین، سرکاری مشینری، الیکشن کمیشن اور عدلیہ تک سب نے تسلیم کرلیا کہ خرچہ 15لاکھ سے زیادہ نہیں ہوا تھا ورنہ کچھ نہ کچھ تو پوچھ گچھ ہوتی۔عوام کا تو کام ہی تسلیم کرنا ہے سو یہ بھی سہی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سوسائٹی کااسی طرح چلنا افورڈ کرسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ آج پاکستان کا اصل مسئلہ کمپرومائزڈ سوسائٹی ہی ہے جسکا Multiplying Factor’’تسلیم ‘‘ہے۔اگر ہم تسلیم کو ردِعمل میں بدل سکیں تو کرپشن، طاقتور کی بے حسی اور کمزور کی بے بسی سمٹ کر ختم ہو جائینگے۔یہ سب کچھ PUBLIC SUOMOTOکے ذریعے سے ہی ممکن اور نا گزیرہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ ’’ کمپرومائزڈ سوسائٹی‘‘ ہے
Apr 29, 2016