اسلام آباد (عترت جعفری) ’’پانامہ لیکس‘‘ کی تحقیقات ممکن ہے یا نہیں اس سلسلے میں جاری بحث سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ اس کی شفاف اور نتیجہ خیز تحقیقات اسی وقت ممکن ہے جب پانامہ کی حکومت اور مرکزی بینک مجوزہ جوڈیشل کمشن کو تعاون فراہم کریں۔ پاکستان اور پانامہ کے درمیان معلومات کے تبادلہ کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے حق میں جائے گی جن کے نام پانامہ لیکس میں سامنے آئے یا ابھی سامنے آنے والے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس طرح کے معاملات سے منسلک قانونی فورمز کے لئے کام کرنے والے ایک ثقہ ماہر نے بتایا کہ ملک کے اندر جہاں سٹیٹ بینک‘ ایف بی آر‘ نیب‘ ایف آئی اے‘ ایس ای سی پی جیسے ادارے ملکی قوانین کے تحت کام کرتے ہیں ان سے ہر طرح کا ریکارڈ اور تحقیقات ممکن ہو گی تاہم جب یہاں سے ملنے والے شواہد کی تصدیق کے لئے بین الاقوامی سطح پر جانا پڑے گا تو رکاوٹیں آنا شروع ہو جائیں گی۔ ماہر کا کہنا تھا کہ پانامہ سمیت جتنے بھی ’’ٹیکس ہیون‘‘ ہیں وہ متعلقہ ملک کے قوانین کے تحت ہیں آف شور کمپنیاں ’’ڈاکومنٹیڈ‘‘ ہیں‘ اصل ایشو ان کے اکاؤنٹس تک رسائی ہے جو متعلقہ حکومت اور اس کے سنٹرل بینک کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔ ماہر نے کہا کہ اس صورتحال میں ملک کا صرف ایک ادارہ جوڈیشل کمشن کی مدد کر سکتا ہے جو ایف آئی اے کے تحت قائم ’’اکنامک کرائمز ونگ‘‘ ہے۔ اگر مقامی تحقیقات کے نتیجہ میں کسی فرد کے خلاف شواہد ملتے ہیں تو اس کے لئے ایف آئی اے کے اکنامک کرائمز ونگ کے سامنے باقاعدہ درخواست کے ساتھ شکایت دائر کرنا ہو گی۔ انٹرپول کی مدد سے بین الاقوامی سطح پر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ حکومت سے حکومت کی بنیاد پر بھی پانامہ سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ مطلوبہ معلومات فراہم کرے تاہم یہ راستہ بھی آسان نہیں اس کی پذیرائی کے امکانات کم ہیں۔ آف شور کمپنیاں قانونی ہیں تاہم یہ بات کرنا کہ ان میں جو پیسے پڑے ہیں کیا وہ غیر قانونی ذریعہ سے آئے تھے یہ ثابت کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں پیسے کی ’’ٹریل‘‘ ڈھونڈنا پڑے گی جو مشکل ضرور ہے تاہم ’’جوڈیشل کمیشن‘‘ ملک کے اداروں کے اندر بکھرے شواہد کی تلاش کے لئے وسیع اختیارات کے ساتھ اپنے ٹھوس شواہد ضرور سامنے لا سکتا ہے جس کی بنیاد پر قوانین کو سخت بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو بھی اب مختلف ممالک کے ساتھ ’’معلومات کے تبادلہ‘‘ کے مطالبات کو جلد حتمی شکل دینا پڑے گی۔