جس دن سے پانامہ کیس کا فیصلہ آیا ہے اپوزیشن اور خصوصاً عمران خان کی امیدوں پر ابلتا ہوا پانی پڑ گیا ہے۔ اسی لئے آصف زرداری سے لے کر عمران تک سب ایک زبان ہو کر وزیراعظم سے ’’اخلاقی طور پر‘‘ مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عدالتی فیصلے کو چھوڑ کر اختلافی نوٹ کو موضوع سخن بنایا ہوا ہے اور اس بات پر بضد ہیں کہ دو ججوں نے وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامیوں اور سپورٹرز نے صرف اختلافی نوٹ لکھنے والے ججز کو سلام پیش کیا ہے اور باقی تین معزز ججز کے بارے میں اتنے توہین آمیز ریمارکس دیئے ہیں کہ بالآخر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو یہ کہنا پڑا کہ ’’پوری دنیا میں عدالتی فیصلوں میں اختلافی نوٹ لکھے جاتے ہیں لیکن ایسا شور کہیں نہیں مچتا جیسا پانامہ لیکس کے فیصلے کے بعد پاکستان میں ہو رہا ہے۔ عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتی ہیں۔ لہٰذا عدلیہ کی عزت و وقار کو کسی صورت مجروح نہیں ہونا چاہئے‘‘ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے فیصلہ دینے والے دیگر تین ججز سے متعلق توہیز آمیز ریمارکس سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ عدالتی فیصلے کی توہین ہے جس پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے بظاہر تو یہی کہا کہ ہم عدالتی فیصلے سے مطمئن ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی طرح پی ٹی آئی نے بھی مٹھائی تقسیم کی اور شیخ رشید اور عمران خان نے بھی منہ میٹھا کیا لیکن اندر سے وہ جو چاہتے تھے‘ وہ نہ ہوا۔ یعنی میاں محمد نوازشریف کو نااہل قرار نہیں دیا گیا اور نہ انہیں عہدے سے برخواست کیا گیا۔ اس چیز کا دکھ عمران خان کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی کھائے جا رہا ہے۔ تبھی تو وہ میاں نوازشریف سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور یہ دھمکی بھی بلاول بھٹو کی زبانی انہوں نے دی ہے کہ ’’ہم عوامی طاقت سے استعفیٰ لیں گے‘‘… ویسے آصف زرداری کا میاں نوازشریف کو کرپٹ اور لٹیرا کہنا‘ شور مچائے شور‘ والی بات ہے۔ کیونکہ کون نہیں جانتا کہ آصف زرداری کے دور حکومت میں ہر امیر آدمی اپنی جیب بچاتا پھر رہا تھا اور جس مہارت اور عقلمندی کے ساتھ آصف زرداری نے دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا ہے اس کی کوئی مثال کرپشن کی دنیا میں نہیں ملتی۔ کیونکہ اتنا سب کچھ لوٹ لینے اور بیرون ممالک میں جائیدادیں خرید لینے کے بعد بھی آصف زرداری کے خلاف کوئی ثبوت کرپشن کا نہیں مل سکا۔ اس مہارت کی داد تو دینا ہی پڑے گی۔ میرا خیال ہے آصف زرداری کو خود بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے؟ سرے محل تو ایک چھوٹا سا مکان ہے آصف زرداری کا… جسے عمران خان ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن میں ’’بلاول ہاؤس‘‘ دیکھ کر بندے کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ یہ زرداری صاحب کی چھوٹی چھوٹی کرپشن کے مظاہر ہیں۔ میاں نوازشریف تو ایک صنعت کار آدمی ہیں۔ ان کے پاس جو دولت ہے وہ انہوں نے محنت سے کمائی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں میاں نوازشریف کا نام بھی شامل نہیں۔ جسے ایشو بنا کر عمران خان نے رائی کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ عمران خان‘ نواز دشمنی میں یہ بھول گئے ہیں کہ وہ ملک دشمنی کر رہے ہیں کیونکہ میاں نوازشریف کی ذات کے ساتھ اس وقت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی جڑی ہوئی ہے۔ اگر میاں نوازشریف کو عہدے سے ہٹایا گیا تو پوری اکنامی کی عمارت جو انہوں نے گذشتہ چار برس کی محنت سے کھڑی کی ہے‘ دھڑام سے نیچے آ گرے گی اور سی پیک منصوبہ درہم برہم ہو جائے گا جس کی وجہ سے پوری دنیا کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا ہے۔ مجھے تو پانامہ لیکس کا معاملہ پاکستان کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش نظر آ رہا ہے کیونکہ میاں نوازشریف نے امریکہ کی غلامی کو خیرباد کہہ کر چین کی طرف رجوع کیا اور چین کے ساتھ گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبہ تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ ہمارا چین کی طرف رخ کرنا اور گوادر کو چین کے ساتھ تعمیر کرنا چونکہ امریکہ کو بہت ناگوار گزرا ہے اور اس سے بھارت کے مفادات پر بھی کاری زد پڑتی ہے لہٰذا یہ ا مریکہ اور بھارت کی ملی بھگت ہے جو پاکستان میں نواز مخالف گروپس‘ سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو اربوں ڈالر دے کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانا چاہتے ہیں اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے اب پوری اپوزیشن اکٹھی ہو گئی ہے اور بڑے زور و شور سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے اور میاں نوازشریف پر سیاسی دباؤ ڈال رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں کیونکہ جب عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں ایسا کوئی اشارہ نہیں رہا تو یہ لوگ نواز دشمنی میں ملک کے ساتھ کیوں دشمنی کر رہے ہیں؟ یہی وہ لوگ ہیں جنجہوں نے آج تک کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا۔ اس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہے۔ بھارت ان سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو کروڑوں‘ اربوں روپے سالانہ دیتا ہے تاکہ وہ پاکستان میں کالا باغ ڈیم نہ بننے دیں۔ ملکی مفاد کے ایک منصوبے کو ان عاقبت نااندیشوں نے سیاسی ایشو بنا کر کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ ان لوگوں نے تو سی پیک منصوبے کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنے کی کوشش کی تھی لیکن چونکہ وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف بھی اس میں دلچسپی رکھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے تمام پارٹیوں کے سربراہوں سے سی پیک منصوبے کی تکمیل کے لئے ایک حلفیہ بیان پر دستخط لئے۔ اب عمران خان صرف نواز دشمنی میں سی پیک منصوبے کو برباد کرنا چاہ رہے ہیں۔ کبھی وہ دھاندلی کا شور مچاتے ہیں۔ کبھی لوڈشیڈنگ کو بہانہ بناتے ہیں اور اب پانامہ لیکس کو ایشو بنا کر حکومت گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران ایک تعلیم یافتہ‘ بالغ نظر اور دوراندیش آدمی ہیں۔ انہیں کم از کم ملکی مفاد کو تو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ذاتی عناد اور ذاتی دشمنی کو بنیاد بنا کر ملک کی بنیادیں کمزور نہیں کرنا چاہئے اور زرداری کو بھی ذرا اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے۔ ویسے تو ان کا حال ’’صم‘ بکمن‘‘والا ہے لیکن ٹرائی کرنی میں کیا حرج ہے؟