ذوالفقار علی بھٹو ہر حکمران کی طرح مقبولیت کھو چکے تھے ۔جس کا اندازہ انہیں ضمنی انتخابات اور خاص طور پر لاہور کے حلقہ نمبر6کے الیکشن میں ہوچکا تھا۔جس میں غلام مصطفے کھر نے ایک بار تو حکومت کی چولیں ہلا کررکھ دیں۔اور آخر76ء میں جونہی ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات کا اعلان کیا تو تمام سیاسی جماعتیںسرجوڑ کربیٹھ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے P.N.A(پاکستان قومی اتحاد) کے نام سے متحد ہوگئیں۔حزب اختلاف کے اکٹھاہونے کی فوری وجہ ذوالفقار علی بھٹوکا وہ سلوک تھا جو انہوں نے اقتدار میں رہ کرپہلے دن سے ہی ان سے رواء رکھا۔اصغر خاں کا گھر جلا دیا گیا تھااور وہ اپنے گھوڑوں کے اصطبل کی تزئین وآرائش کرکے پورے خاندان سمیت وہیں رہ رہے تھے۔ان کے بہنوئی بریگیڈئیرعلیم آفریدی پر سازش کیس بنا دیا گیا ۔ان کے جلسوں میں گرائونڈ میں پانی چھوڑ دیا جاتا اور شرکت کیلئے آنے والوں قافلوں پر پہلے پولیس لاٹھی چارج کرتی پھر بھٹو کی بنائی ہوئے"فیڈرل سیکورٹی فورس"کے دستے ان پر فائرنگ کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔شہر شہر تحریک استقلال کے کارکنوں کو جسمانی کے علاوہ مالی اورکاروباری اذیتیں بھی پہنچائی جاتیں کبھی کبھی تو پیپلز پارٹی کے کارکن "الف"ہوکر ان کے گھروں اور دکانوں کے سامنے ناچتے ۔اصغر خاں کے علاوہ مسلم لیگ کے ملک قاسم کی دوران تشدد پولیس نے ریڑھ کی ہڈی کو اتنا نقصان پہنچایا کہ عمر بھر وہ اس کرب سے نہ نکل سکے۔میاں طفیل محمد کے ساتھ حوالات میں اتنا شرمناک تشدد کیا گیا کہ قلم لکھنے سے قاصرہے۔مفتی محمود کو ٹانگوں اور بازوئوں سے پکڑ کرقومی اسمبلی سے باہر پھینک دیا گیا۔آزاد کشمیر میں سردار عبدالقیوم کی حکومت میں ناجائیز مداخلت کرکے پیپلز پارٹی قائم کی گئی۔صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیتہ علماء اسلام کی حکومتیں ختم کردیں گئیں۔نیشنل عوامی پارٹی کو سپریم کورٹ سے غیر قانونی جماعت قرار دلواء کر خان عبدالولی خان۔ میرغوث بخش بزنجو۔عطاء اللہ مینگل او ر۔حبیب جالب سمیت کئی اہم سیاسی راہنمائوں کو حید رآباد کی "ناڑہ جیل"میںتین سال کے قریب قریب دارورسن کے عذاب میں مبتلارکھا گیا ۔چوہدری ظہور الہی پر ناجائز مقدمے قائم کیئے گئے اور ایک بار تو انہیں پولیس مقابلے میں "پار" کرنے کیلئے بلوچستان روانہ کردیا گیا۔وہ تو بھلا ہو اس وقت کے گورنربلو چستان نواب اکبر بگٹی کا کہ انہوں نے کہا کہ خبرداراگر بلوچستان میں کسی راہنما کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔"مصطفے کھرسے کہو کہ اگر ظہور الہی کو مروانا ہے تو پنجاب لے جائے"ڈیرہ غازی خاں میں جماعت اسلامی کے M.N.Aڈاکٹر نذیر کو دن دیہاڑے ان کے کلینک پر قتل کردیا گیا۔لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر تحریک استقلال کے جلوس میں شامل خواجہ رفیق شہید ہوگئے ۔بھاٹی گیٹ میں تحریک استقلال لاہور کے صدر شیخ حفیظ کے بیٹے کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔خود پیپلز پارٹی کے شیخوپورہ سے M.N.Aچوہدری اقبال پر اسلام آباد میں ٹرک چڑھاکر قتل کردیاگیا۔سیاست کے باب میں ایسی ایسی گھنائونی اور شرمناک داستانیں لکھی گئیں کہ خود سیاست ہی شرمندہ ہوگئی۔ایسے میں دلی اور ذہنی طور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایسا ماحول بن چکا تھا جس سے حزب اختلاف کو متحد ہونے میں ذرا بھی تامل نہ ہوا ادھر دسمبر76ء میں انتخابات کا اعلان ہوا تو زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کے اندر اندر 10جنوری کو شاد باغ لاہور میں رفیق احمد باجوہ کی رہائش گاہ پر"پاکستان قومی اتحاد"کے قیام کا باقائدہ اعلان ہوچکا تھا۔ سیاسی ماحول ایسا بن گیا کہ اگر اس موقع پر تحریک استقلال الگ تھلگ ہوکر صرف اپنی ذاتی حثیت میں انتخابات میں حصہ لینا چاہتی تو شائد سیاسی طور پر پٹ جاتی ۔تاہم P.N.Aکے اندر وہ سب سے بڑی جماعت اور اصغر خاں"اتحاد"کے سب سے بڑے راہنما تسلیم کئے گئے ۔ان جماعتوں کے اتحاد کا شروع دن سے مقصد تو متحد ہوکر انتخابی میدان میں ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا تھا۔اگر ایساہی مقصد رہتا تو کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ یہ سیاسی عمل تھا جس سے ہر سیاسی جماعت کو گذرنا ہوتا ہے ۔بات سیاست سے دوسری طرف اس وقت چلی گئی جب رفیق باجوہ جوکہ جمعیتہ علماء پاکستانP.N.Aکے سیکرٹری جنرل تھے انہوں نے یک بیک اس اتحاد کو "تحریک نظام مصطفے"کا نام دے دیا۔اگر یہ صرف ایک "سیاسی انتخابی تحریک"ہی رہتی تو بھی ذوالفقار علی بھٹو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔بہر حال اس تحریک کے دوران بھی ریاستی تشدد جاری رہا۔اتحاد کے کارکنوں اور راہنمائوں نے روزانہ پانچ پانچ کی ٹولیوں کی شکل میں گرفتاریاں دے کرتحریک کو زندہ رکھااور اپنی آزادی کی قربانی دے کر جیلوں کو آباد کیا ان کا ذکر کسی اور باب کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں۔غرض کہ اسی دوران 5جولائی1977ء کا وہ دن بھی آگیا جب ضیاء الحق نے قوم سے خطاب کرکے یقین دلایا کہ "بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی ہے اور اسلامی نظام کیلئے لوگوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ قابل ستائش ہیں "یہاں سے اب تحریک استقلال ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔اب اس کے سامنے ایک بڑا اور اہم سوال آن کھڑا ہوکہ کیاوہ اپنے آپ کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر زندہ رکھے یا نظام مصطفے کی راہ پر چلتے ہوئے ان مقاصد کا ساتھ دے جوکہ P.N.Aکے نہیں تھے اور نہ ہی اس پر کوئی پیپر ورک(PAPER WORK) ہوا تھا پھر بھی "پاکستان قومی اتحاد"اپنی جس مقبولیت کے نقطہ ء عروج پر تھا اسے اس وقت اپنی اوقات یاد آگئی جب لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس صمدانی نے نواب محمد احمد خاں قتل کیس میںذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت منظور کی اور وہ لاہور کی سٹرکوں پر آئے تو ان کے حامی اور محالفین کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
پس تحریر:۔ تحریک استقلال بلاشبہ ایک وقت میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ اس کا وجو دملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ کشمیر اور گلگت میں بھی تھا۔تحریک کے منشور میں بہاولپور اگ صوبے کی حثیت رکھتا تھا اور طاہر ہ مسعود اس صوبہ کی اولین صدر تھیں ان کے بعد جسٹس (ر) میاں اللہ نواز اور دیگر کئی سیاسی شخصیات اس صوبہ کی صدر بنیں۔ابھی تک مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت 70ء سے لیکر اب تک چاروں صوبوں اورکشمیرو گلگت کی نمائندہ ہونے کا دعوی نہیں کرسکتی ۔اتنی بڑی سیاسی جماعت کا ختم ہونا جہاں اصغر خاں اور تحریک استقلال کے کارکنوں کیلئے ایک صدمہ ہے وہیں یہ ایک قومی سانحہ بھی ہے ۔سیاسی تنظیمیں (جماعتیں)ملک چلاتی ہیں۔ اس میں ہر طرح کے زہین اور طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔تحریک استقلال ملک کے درمیانے اور پڑھے لکھے طبقے کی جماعت تھی۔کارکن بے لوث اور قیادت انہتائی دیانتدار ایسا منشور ابھی تک کوئی جماعت نہیں دے سکی۔تحریک استقلال ایک چھائو ں دینے والا درخت تھا جوکاٹ دیا گیا۔اب لوگ جھوٹ منافقت اور بد دیانتی وکرپشن کی سخت دھوپ میں جھلس رہے ہیںتڑپ رہے ہیں مگر کوئی جائے امان ملتی ہے نہ کوئی راہ دکھانے والااگرچہ اللہ کے کرم سے اصغرخان ابھی زندہ ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ خاص طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جو سلوک ان کے ساتھ روراکھا ایسا شائدکسی دشمن کے ساتھ بھی نہ رکھا گیا ہوگا۔ تحریک استقلال کی تاریخ کی بابت میرے اس کالم کا پہلا حصہ شائع ہوچکا ہے ۔جس کے لئے میں جناب سعید آسی صاحب کا انتہائی مشکور ہوں ۔گذارش ہے کہ اگر کسی جگہ میری تصیح مطلوب ہو تو میرے نمبر 0333-4562467پر آگاہ کریں۔لکھتے لکھتے بہت کچھ اس لئے بھی یاد نہیں رہتا کہ میں نے کوئی ڈائری وغیرہ کبھی نہیں لکھی ۔صرف اپنی یاد داشتوں کا سہارا لیا ہے جن کی صحت پر تو مجھے شک نہیں البتہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے موضوع چونکہ پر انا ہو چکا ہے اس لئے کچھ واقعات اور نام بھول بھی جاتے ہیں جنہیں قارئین اگر یاد کرادیں تو نواز ش ہوگی۔