آپ ہی اپنی جفاوں پہ ذرا غور کریں

ظلم یا دخل اندازی کسی ایک خطے میں ہو رہی ہوتو یاد بھی رہتی ہے۔ کہ مداخلت کی نوعیت کیا ہے مگر جب یہ اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو ٹرمپ جیسا منظر پیش آتا ہے ۔ ایک انٹرویومیں ٹرمپ یہ بھول گئے کہ انہوں نے مزائل حملے سیریا پر کئے یا عراق پر ۔ اور سیریا پر حملے کا یہ فیصلہ موصوف نے چاکلیٹ کیک نوش فرماتے ہوئے کیا۔ یعنی انسانیت کے ان علمبرداروں کے لیے تباہی وبربادی کا فیصلہ کرنااس قدر آسان ہے جیسے نرم کیک کھانا۔ سیریا کی عوام ، ایک طرف ملکی حکومت کے مظالم سہہ رہی ہے تو دوسری طرف بیرونی حملوں کا خمیازہ بھی انہی عورتوں ، بچوں اور شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ سیریا کی عوام ، کیمیائی ہتھیاروں سے نکلنے والی آتش و آہن کا شکار ہونے والے بچے اور ظلم و بربریت سہنے والی خواتین انسانیت کے علمبرداروں سے سوال کرتے ہیںکہ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے تحفظ کے لیے ایک بھی شق "Universal Declaration of human rights" کی دستاویزات میں موجود نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس ظلم کے خلاف ، اس جبر وتشدد کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کرنے کے لیے UNO کو سب سے پہلے سامنے آنا چاہیے ©©۔’انسانیت ‘ کا مطلب عام فہم میں ’انس کی نیت ‘ رکھنا ہے مگر یہ کیسی محبت جس میں اس بے رحمی سے اس عوام کا قتل ِعام کیا جاتا ہے جن میں سے اکثر و بیشتر طاقت کی مڈ بھیڑ اور سیاسی کشیدگی سے نا آشنا ہوتے ہیں ۔ سیریا میں مرنے والے بچے کس کے ساتھ تھے؟ بشارلاسد کے ساتھ یا ٹرمپ کے ساتھ ؟ امریکہ صرف اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ جو یہ بھول گیا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ نے جس قربت اور وابستگی کا اظہار کیا اس کا انعام دہشت گردی کے ٹیگ سے دیا جاتا ہے اور دہشت گردی ایک برانڈ کے طورپر پاکستانیوں اور مسلمانوں کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے ۔ جبکہ ہمارا بیان یہ ہے کہ مسلمان ،دہشتگرد نہیں ہوتا اور دہشت گرد، مسلمان نہیں ہوتا۔ اگر یہ لوگ 9/11(نائن الیون ) کے حملے کے بعد اس طرح کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں توسیریا میں لوگوں کے قتل اور امریکہ کی جانب سے کئے گئے مزائل حملے کو کیا نام دیں گے؟دہشت گردی یا چاکلیٹ کی طرح کچھ کڑوا ، کچھ میٹھا عمل یا کیا؟ ریمنڈ ڈیوس کون تھا ؟ کیا وہ پاکستان میں امن قائم کرنے کے لئے آیا تھا؟ کلبھوشن یادیو کا تعلق کس حلقے سے تھا ؟ریاستی دہشتگرد یا امن پسند ؟۔ کلبھوشن کو رقم پاکستان میں تعمیری کاموں کے لیے دی گئی تھی یا دہشتگردی کے لئے؟ڈرونز کون گراتا ہے۔ پاکستان یا ۔۔۔۔؟ یہ شاید انسانیت کے علمبردار خود ہی سوچیں گے۔
آ پ ہی اپنی جفا¶ں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
معاشی جنگ اور ایٹمی ہتھیاروں کے بے جا استعمال کے اس دور میں انسانیت کی زبوں حالی اور مادیت پرستی کے فروغ کا منہ بولتا ثبوت ہم سب کے سامنے ہے۔ اور جس نفاست اور ذہانت کے ساتھ انسانیت کی خدمت کا دعوی کرتے ہوئے اپنی طاقت کا تحفظ کیا جاتا ہے اس میں بیرونی طاقتیں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔
آج وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کرامت کا پردہ فاش کیا جائے۔ معاشی مفاد کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ کو سمجھا جائے اور آپس کی نفرت و کدورت کو مٹا کر محبت اور امن کا پیغام دیا جائے کیونکہ اگر یہ بر بریت اسی طرح قائم رہی تو یہ مظلوم کے ساتھ ساتھ ظالم کو بھی لے ڈوبے گی۔ لہٰذا یہ فرض ہے عالمی اور بین الاقوامی میڈیا کا اور انسانی حقوق کی ان تمام تنظیموں کا جو اپنی وابستگی کا اظہارانسانی حقوق کے تحفظ سے کرتی ہیں۔ اس لیے ظلم کے اس دور میں امن کی شمع کو روشن کیا جائے اور دلیری اور بہادری کے ساتھ حق کو حق کہا جائے اور باطل کو باطل اور جب تک اس فرض کو ادا نہیں کیا جاتا تب تک یہ قرض ہے ۔ لہٰذا قرض کے اس مرض سے بچنے کے لیے اپنے فرض کا تعین کرنا ہی وقت کی ضرورت بھی ہے اور امن کی جانب گامزن ایک سفر بھی ۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...