تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں مل کر فوجی مشقوں میں حصہ لیں گی۔ یہ مشقیں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت اگست میں ہونگی جس کی میزبانی رکن ملک روس کریگا۔ان فوجی مشقوں کا عنوان "امن مشن 2018 "ہے جبکہ اس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دہشت گردی کے خاتمے ،ان کے نیٹ ورک کو بے اثر کرنے ،اور ممکنہ حملوں کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہونگی۔یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں جو ہمیشہ میدان جنگ میں یا سرحدوں پر ایک دوسرے کے مقابل رہی ہیں وہ مشترکا طور پر کسی ہد ف کو حاصل کرنے کے لیئے ایک ساتھ مشقیں کریں گی۔اس میں روس ، چین بھی جو کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے روح رواں ہیں شامل ہونگے۔پاکستان اور بھارت کے وزراء دفاع نے ان مشقوں میں شمولیت کا اعلان کیا۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چار مہینے بعد روس کے یورال پہاڑوں پر ہونے والی ان فوجی مشقوں سے متعلق تمام امور بہ خوبی طے کرلیئے گئے ہیں۔یہ ایک بہت اچھی پیش رفت ہے کیونکہ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے اور اہم ممالک کی جانب سے کسی بھی امن کی خواہش کا عملی اظہار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ایسے فیصلے کرنے کے لیئے بڑی جرات اور دانش مندی کی ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر اس وقت جبکہ معاملہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کے درمیان ہو۔جن کی 70 سالہ دشمنی ایک نہ ختم ہونے والا باب بن چکا ہے۔اس میں حکومت اور فوجی قیادت دونوں کو داد دینی پڑے گی۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا خاص طور پر پاکستان کے نقطہ نگاہ سے جبکہ کشمیر اور دیگر معا ملات میں بھارت کی ہٹ دھرمی اسی طرح جاری ہے۔لائن آف کنڑول کے اوپر دونوں ممالک کی فوجیں صرف آمنے سامنے ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف ایکشن لیتی رہتی ہیں۔لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دو ممالک کو جس مشترکا دشمن کا سامنا ہے وہ دہشت گردی ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع نے بجا طور پر کہا ہے کہ ،ہماری افواج نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیئے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں جانوں کا نذر انہ اور اربوں ڈالر کی املاک کا نقصان برداشت کیا ہے۔ پاکستا نی افواج دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں بڑی مہارت اور تجربہ رکھتی ہے۔ اس کا اعتراف حال ہی میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ کے دورہ ماسکو میں خود روس کی فوجی قیادت نے کیا۔دوسری جانب چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں جو علاقے کی بھی بہت بڑی قوت شمار کی جاتی ہیں ان مشقوں میں شامل ہونگی۔ اس لیئے ان کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ یہ علاقائی تعاون اور دہشت گردی جیسے عفریت کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کے لیئے مشترکہ کوششوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔چین کے تحت قائم ہونے والی تنظیموں میں دو امور کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ اول یہ کہ زیادہ سے زیادہ ملکوں کے اقتصادی حالات کو بہتر بنایا جائے۔عام لوگوں تک ترقی کے فوائد پہنچائے جائیں اور علاقے مجموعی طور پر آگے بڑھیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اس کی ایک بہترین مثال ہے جس میں وسطی ایشیاکے کئی ملک بھی شامل ہیں۔ ایسے وسیع اثرات کے حامل منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیئے علاقے میں امن لازمی ہے۔ امن کے بغیر نہ تو اقتصادی پیش رفت ممکن ہے اور نہ ہی معاشی ترقی۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایس سی اے کے تحت دہشت گردی کے خلاف منعقد ہونے والی یہ مشترکا علاقائی مشقیں بڑے دور اس اثرات کی حامل ہونگی۔فوجوں کو ان مسائل سے سمجھنے کا موقع ملے گا جو دہشت گردی سے نمٹنے کے دوران پیش آسکتے ہیں۔ پھر ان کے ذریعے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔دہشت گردی کے خلاف اس غیر روایتی جنگ میں پاکستان نے مختلف محاذ وں پر کامیابی حاصل کی ہے ،وہ اپنی مثال آپ ہے۔سب سے بڑھ کر ایک تعاون کی فضا فوجوں کے درمیان قائم ہوگی جس کی پاکستان اور بھارت کو اشد ضرورت ہے۔اس سے قبل پاکستان اور بھارت اقوام متحدہ کے امن مشن میں شامل ہوتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان اس ملٹری الائنس کا بھی حصہ ہے جو سعودی عرب کی کوششوں سے وجود میں آیا جس میں 41 ،ممالک شامل ہیں۔ ان کا مقصد بھی ان ممالک کو درپیش دہشت گردی اور ان سے متعلق معاملات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ۔دہشت گردی ایک عالمی مسلہ ہے۔ نیوزیلینڈ سے افریقا تک اس خطہ ارض پہ شاید ہی کوئی ملک بچا ہو جس کو اس غیر روایتی جنگ کے خلاف کچھ نہ کچھ بھگتا نہ ہو۔ پاکستان تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے جس کے کردار کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کو دہشت گردی سے متعلق سنگین شکایات رہی ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کو اس سلسلے میں مورد الزام بھی ٹھہر اتے رہے ہیں۔ خوش آئندبات ہے کہ شنگھائی تعاون جیسے عالمی ادارے کے تحت اب یہ دونوں خود دہشت گردی کے خلاف مشقوں میں حصہ لیں اور ان تجربات کو شیئر کریں جو ان کو حا صل ہیں۔بر صغیر ایک سو پچاس کروڑ افراد کا مسکن ہے۔ اس کے یہ دونوں ممالک غربت ، جہالت ،صحت کے مسائل اور دیگر سماجی ایشوز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی ترقی کی راہ میں یہ مسائل ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کی عوام کی یقینا یہ خواہش ہے کہ ان مسائل کو حل کر کے دنیا بھر کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوا جائے۔اس قسم کے تعاون کی کوئی بھی خبر سامنے آتی ہے تو لوگوں کے دلوں میں ایک امید یہ جاگ اٹھتی ہے کہ شاید یہی وہ "پہلا قدم " بن جائے جوآگے چل کے خطے میں امن کے قیام ، ایشوز کے حل ، اور بالآ خر دیر پا ترقی کا باعث بنے۔