عوام پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کرکے انتخابات میں انکے دل جیتنا مشکل ہوگا

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ‘ وزیراعظم کا یادگار بجٹ کا دعویٰ اور اپوزیشن کے مفتاح اسماعیل کے تقرر پر اعتراضات
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 2018-2019ءکا 5 ہزار 932‘ ارب 50 کروڑ روپے کا وفاقی بجٹ جمعة المبارک کی شام قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ اس سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ بجٹ کی منظوری دی گئی جبکہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے وزیراعظم نے مفتاح اسماعیل کے بطور وفاقی وزیر خزانہ تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کیا جنہوں نے وفاقی وزیر کے منصب پر تقرر پانے والے دیگر چار وزرائے مملکت مریم اورنگزیب‘ طارق فضل چودھری‘ انوشہ رحمان‘ ماروی میمن اور وزیر مملکت کے منصب پر تقرر پانے والی لیلیٰ خاں کے ہمراہ وفاقی وزیر کا حلف اٹھایا اور انہوں نے بجٹ تقریر مشیر خزانہ کے بجائے وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر کی۔ انکے پیش کردہ بجٹ میں وسائل کی دستیابی کا تخمینہ 47172‘ ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس بجٹ میں صوبوں کا حصہ 2590.1‘ ارب روپے ہوگا۔ بجٹ میں سود کی ادائیگی کیلئے 16202‘ ارب روپے پینشن کیلئے 342‘ ارب روپے‘ گرانٹس کیلئے 477‘ ارب روپے‘ سبسڈیز کیلئے 174‘ ارب روپے اور متفرق ترقیاتی اخراجات کیلئے 180.2‘ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں مجموعی اخراجات کا تخمینہ 52462‘ ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 4888.6‘ ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں ایف بی آر ریونیو کا ہدف 4436‘ ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ 453.6‘ ارب روپے دیگر ٹیکسوں سے حاصل ہونگے۔ اسی طرح بجٹ میں نان ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 7719‘ ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بنکوں سے 1015.3‘ ارب روپے کے قرضے لئے جائینگے۔ بجٹ خسارہ 18 کھرب 190‘ ارب روپے ہے۔
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض آئٹمز پر ٹیکس یا ڈیوٹی کی مد میں اضافہ اور بعض اشیاءپر ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ انکے بقول بجٹ میں مجموعی طور پر 184.4‘ ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے جبکہ 93,32‘ ارب روپے کے ریونیو اقدامات کئے گئے ہیں۔ دوسری جانب ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ ریلیف اقدامات زیادہ ہونے کے باعث 91.17‘ ارب روپے کا ریونیو نقصان ہوگا۔ بجٹ میں سیمنٹ‘ سگریٹ‘ ایلومینیم‘ آٹوپارٹس‘ سویابین آئل پر ڈیوٹی بڑھادی گئی ہے۔ کاپر کے سکریپ کی برآمد پر 30 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے اور پانچ ہزار سے زیادہ ڈیوٹی ٹیرف لائن میں شامل لاکھوں آئٹمز کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کے ریٹ میں مزید ایک فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ موبائل فون کی سی کے ڈی اور ایس کے ڈی‘ کٹ کی صورت میں درآمد پر 175 روپے فی سیٹ ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے اور سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایک روپے 25 پیسے فی کلوگرام سے بڑھا کر ایک روپے 50 پیسے فی کلوگرام کردی گئی ہے۔
مجوزہ بجٹ میں انکم ٹیکس کے قانون میں ایک اہم تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت نان فائلرز کے نئی گاڑیاں خواہ وہ ملک کی بنی ہوئی ہوں یا درآمد شدہ ہوں‘ خریدنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کردہ فنانس بل کے مطابق سپر ٹیکس کا نفاذ بدستور جاری رہے گا جو بنکنگ کمپنیوں پر تین فیصد اور نان بنکنگ کمپنیوں پر 30 فیصد کے حساب سے نافذ ہے۔ بجٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہر سال تین فیصد کے ٹیکس ریٹ میں ایک فیصد کمی کی جائے۔ بجٹ میں درآمد فریج‘ واشنگ مشین‘ ویکیوم کلینر‘ سمیتھ اور گھروں میں استعمال ہونیوالی درجنوں دوسری آئٹمز کی سی کے ڈی اور ایس کے ڈی حالت میں درآمدی پر دس فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی جس سے گھروں میں استعمال ہونیوالی تمام درآمدی اشیاءمہنگی ہو جائینگی۔ اس بار شادی ہالز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے اور بڑے شہروں میں واقع شادی ہال یا کھلے میدان میں تقریب کرنے پر بل کے پانچ فیصد یا 20 ہزار روپے ان دونوں میں سے جو زیادہ ہو‘ ادا کرنا پڑینگے جبکہ چھوٹے شہروں میں ریٹ بل کے پانچ فیصد یا دس ہزار روپے کا ہوگا۔
سول اور فوجی ملازمین کیلئے ریلیف:
بجٹ میں یکم جولائی 2018ءسے سول اور فوجی ملازمین کیلئے دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے۔ اسی طرح تمام پنشنرز کو بھی دس فیصد اضافہ کا ریلیف دیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کے ہاﺅس رینٹ میں بھی پچاس فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور پنشن کی کم سے کم شرح 6 ہزار سے بڑھا کر دس ہزار روپے کردی گئی ہے جبکہ فیملی پنشن 4500 روپے سے بڑھا کر 7500 روپے کردی گئی ہے۔ اسی طرح 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کیلئے کم از کم پنشن پندرہ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کو گھر‘ گاڑی اور موٹرسائیکل خریدنے کیلئے ایڈوانس دینے کی مد میں 12‘ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے سینئر افسران کو پرفارمنس الاﺅنس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کیلئے پانچ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کے بقول آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم رواں مالی سال کے مقابلہ میں 16.2 فیصد زیادہ ہے۔
ٹیکس اصلاحات:
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلان کیا تھا کہ بارہ لاکھ روپے سالانہ تک آمدن پر انکم ٹیکس زیرو ہوگا تاہم فنانس بل میں وزیراعظم کے اس اعلان پر سیاہی پھیرتے ہوئے 12 لاکھ روپے تک کی آمدن پر تین سلیب میں انکم ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ فنانس بل کے مطابق چار لاکھ روپے تک سالانہ آمدن پر ٹیکس ریٹ زیرو ہوگا جبکہ چار سے آٹھ لاکھ روپے تک سالانہ آمدن پر ایک ہزار روپے اور آٹھ سے 12 لاکھ روپے تک کی آمدن پر دو ہزار روپے سالانہ انکم ٹیکس لاگو ہوگا۔ اسی طرح 12 سے 24 لاکھ روپے تک سالانہ آمدن پر پانچ فیصد انکم ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جبکہ 24 سے 48 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن پر تین لاکھ روپے بمع 15 فیصد ٹیکس عائد کیا جائیگا۔ ایسوسی ایشن آف پرسنز کیلئے ٹیکسوں کی شرح پر بھی نظرثانی کی گئی ہے تاہم انکی چار لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن پر ٹیکس چھوٹ برقرار رہے گی۔
دفاعی بجٹ :
فنانس بل میں دفاعی شعبہ کیلئے 11 کھرب‘ تین ارب 34 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال 2017-18ءکے نظرثانی شدہ دفاعی بجٹ سے ایک کھرب روپے سے کچھ زائد ہے۔ پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے 62‘ ارب ڈالر کے نئے دفاعی بجٹ اور افراط زر کی شرح اور مہنگائی کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے دفاعی بجٹ میں ایک کھرب روپے کا اضافہ محض علامتی نوعیت کا نظر آتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مکمل بندش اور دفاع و سلامتی کیلئے امداد ختم کرنے کے بعد اب انسداد دہشت گردی کے اپریشنز اور ان کیلئے درکار اسلحہ اور آلات کے تمام تر اخراجات کا بوجھ بھی دفاعی بجٹ پر آن پڑا ہے جبکہ امریکہ کے کولیشن سپورٹ فنڈ کو دفاعی بجٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس فنڈ کے تحت رقم کی ادائیگی کئی برسوں سے تعطل کا شکار ہے تاہم یہ رقم ہمیشہ بجٹ کے نان ٹیکس ریونیو کا حصہ ہوتی تھی۔ نئے مالی سال کے دفاعی بجٹ میں 11 کھرب دفاعی خدمات اور دیگر رقم ڈیفنس ڈویژن سروے آف پاکستان اور چھاﺅنیوں میں قائم تعلیمی اداروں کیلئے مختص ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے دفاعی میزانیوں کا موازنہ کیا جائے تو بھارت اور پاکستان کے دفاعی بجٹ میں فرق اکیاون ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکا ہے۔ اس سال 2 فروری کو بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے آئندہ مالی سال کیلئے بھارت کے جس دفاعی بجٹ کا اعلان کیا وہ ساڑھے 62‘ ارب امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ اسکے برعکس پاکستان کے نئے مالی سال کیلئے دفاعی بجٹ کا مکمل حجم گیارہ ارب امریکی ڈالر سے کچھ ہی زیادہ بنتا ہے۔ ایک سرکاری ذریعہ کے مطابق پاکستان کا انتہائی کم اور بھارت کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ اقوام عالم کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کیونکہ دونوں ممالک کے دفاعی میزانیہ کے مابین بڑھتا ہوا یہ فرق اس خطہ میں ایٹمی ہتھیاروں کے حدِاستعمال کو مزید کم کردیتا ہے۔ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ جی ڈی پی کے پونے تین فیصد سے بھی کم ہے جبکہ کم از کم قابل قبول اضافہ بھی جی ڈی پی کے تین فیصد ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کی بری فوج کے میزانیہ کا موازنہ کیا جائے تو بھارتی فوج کا بجٹ پاک فوج کے بجٹ سے کم از کم چھ گنا زیادہ ہے۔
مفتاح اسماعیل کے بجٹ تقریر کرنے پر
اپوزیشن کا اعتراض اور ہنگامہ:
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیخلاف نیب کے ریفرنس دائر ہونے کے بعد انہیں وزارت خزانہ کے قلمدان سے فارغ کرنے کے باعث وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مفتاح اسماعیل کو وفاقی مشیر خزانہ کے منصب پر فائز کیا جنہوں نے وزارت خزانہ میں وزیر مملکت موجود ہونے کے باوجود وفاقی بجٹ کی تیاری میں حصہ لیا اور اسی بنیاد پر وزیراعظم نے انہیں بجٹ تقریر سے پہلے مکمل وفاقی وزیر بنا کر وزارت خزانہ کا منصب سونپا چنانچہ انکی بجٹ تقریر سے پہلے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اسی تناظر میں قومی اسمبلی میں نکتہ¿ اعتراض اٹھایا کہ کسی ایسے شخص سے جو سرے سے قومی اسمبلی یا سینٹ کا رکن ہی نہیں ہے‘ بجٹ تقریر کرانا سراسر آئین کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اس طرح حکومت جاتے جاتے بھی غیرآئینی اقدامات کی نئی مثالیں قائم کررہی ہے۔ انکے اس اعتراض کی پی ٹی آئی کے رہنماءمخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی تائید کی جن کے بقول حکومت نے پہلے تو قومی اسمبلی کی میعاد پوری ہونے کے صرف ایک ماہ قبل پورے سال کیلئے بجٹ پیش کرکے آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی کی ہے اور پھر ایک اجنبی شخص سے ایوان میں بجٹ تقریر کراکے آئین سے روگردانی کا مزید اقدام اٹھایا گیا ہے۔ اس بنیاد پر اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے دوسرے ارکان نے تو اسمبلی کی کارروائی کا سرے سے بائیکاٹ کیا اور واک آﺅٹ کرکے باہر نکل آئے کہ وہ غیرآئینی طور پر اسمبلی میں پیش ہونیوالے بجٹ کی کارروائی میں خود کو حصہ دار نہیں بنا سکتے جبکہ پی ٹی آئی کے ارکان نے ہاﺅس میں رہ کر مفتاح اسماعیل کی بجٹ تقریر کے دوران احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی انتہاءکئے رکھی۔ اس دوران پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی مراد سعیداور وزیر مملکت عابدشیر علی میں ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس طرح مفتاح اسماعیل کو بہت مشکل صورتحال میں بجٹ تقریر مکمل کرنا پڑی۔ ان پر اپوزیشن کا یہ اعتراض بادی النظر میں درست نظر آتا ہے کہ کسی نان ممبر سے بجٹ تقریر کرانا خلاف آئین ہے۔ آئین کی دفعہ 92 شق (1) کے تحت وزیراعظم اپنی کابینہ میں قومی اسمبلی یا سینٹ کے کسی منتخب رکن کو ہی شامل کرسکتے ہیں جبکہ آئین کے اس تقاضے کے تحت وزیر یا وزیرمملکت کے منصب پر فائز ہونیوالے مجلس شوریٰ (قومی اسمبلی و سینٹ) کے کسی رکن کی مجلس شوریٰ کی رکنیت ختم ہونے کی صورت میں وزیراعظم اسے آئین کی دفعہ 91 شق 9 کے تحت چھ ماہ تک وزیر کے منصب پر برقرار رکھ سکتے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے مفتاح اسماعیل کا تو بطور وفاقی وزیر تقرر ہی آئین کی دفعہ (1)92 کو پیش نظر رکھ کر نہیں کیا گیا اس لئے انکے بطور وفاقی وزیر تقرر کیلئے آئین کی دفعہ 91 شق 9 کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔ اس وقت چونکہ موجودہ اسمبلی کی اپنی میعاد صرف ایک ماہ کی رہ گئی ہے اس لئے اس اسمبلی میں کسی غیررکن اسمبلی کو چھ ماہ تک وفاقی وزیر کے منصب تک کیسے فائز رکھا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کی بنیاد پر مفتاح اسماعیل کے بطور وفاقی وزیر تقرر کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جائیگا تو اس سے انکے پیش کردہ فنانس بل کی آئینی اور قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھنا فطری امر ہوگا۔ وزیراعظم شاہد خاقان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کے بطور وفاقی وزیر تقریر کو قانون کے تقاضوں کے مطابق قرار دیا تاہم وہ متعلقہ قانون کا بھی حوالہ دے دیتے جس کی بنیاد پر وفاقی وزیر خزانہ کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے تو اس سے اپوزیشن کے اعتراضات موقع پر ہی دور ہو سکتے تھے جبکہ اب اپوزیشن کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر آئین اور قانون کے منافی اقدامات کے الزامات لگانے کا موقع ملتا رہے گا۔
وزیراعظم کا یادگار بجٹ پیش کرنے کا دعویٰ:
وزیراعظم شاہد خاقان نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں حکومت کے پیش کردہ چھٹے بجٹ کو یادگار بجٹ قرار دیا اور کہا کہ بجٹ میں عوام کیلئے جو ریلیف دیا گیا ہے وہ اس سے پہلے پاکستان میں کسی بجٹ میں نہیں دیا گیا۔ انہوں نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ تھوڑی سی ہمت پیدا کرے تاہم اسے تکلیف تو ضرور ہوگی کیونکہ بجٹ میں عوام کیلئے جو ریلیف موجود ہے وہ اس سے پہلے کبھی کسی بجٹ کے ذریعے عوام کو نہیں ملا۔ انکے اس دعویٰ کے برعکس بجٹ کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اسکی روشنی میں عوام کوریلیف سے زیادہ مہنگائی کے تحائف اس بجٹ کے ذریعے ملتے نظر آرہے ہیں جن پر مختلف بالواسطہ ٹیکسوں اور پٹرولیم مصنوعات پر بڑھائی گئی لیوی کی شرح میں اضافے کے باعث مہنگائی کا مزید بوجھ اٹھانا پڑیگا جبکہ گھریلو درآمدی اشیاءپر ٹیکس لگنے سے بھی زیادہ تر عام آدمی ہی متاثر ہوگا۔ اسی طرح شادی ہالز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا بوجھ بھی عام آدمی پر ہی پڑیگا کیونکہ شادی ہالز کے مالکان یہ ٹیکس شادی کی تقریب کیلئے بکنگ کرانے والوں سے ہی وصول کرینگے۔ بجٹ میں سیمنٹ اور سریا کے نرخ بڑھا کر عوام کی گھر بنانے کی سکت بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسکے برعکس سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافے کا دیا گیا ریلیف تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہے کیونکہ بجٹ کے نتیجہ میں بڑھنے والی مہنگائی اس ریلیف کو بہا کر لے جائیگی۔ اسی بنیاد پر سرکاری ملازمین اور دوسرے طبقات سراپا احتجاج نظر آرہے ہیں اور سرکاری ملازمین کی تنظیمیں تنخواہوں اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کا تقاضا کررہی ہیں۔ اسی طرح لاہور چیمبرز آف کامرس کی جانب سے بجٹ میں عائد کئے گئے غیرمنصفانہ ٹیکسز ختم کرنے کا تقاضا کیا جارہا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بجٹ میں ای او بی آئی کے پنشنروں کو اس بار بھی یکسر نظرانداز کیا گیا ہے جن کی حقیر رقم پر مبنی پنشن میں ایک دھیلے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہ پنشنرز انتہائی نامساعد حالات میں پیرانہ سالی میں اپنی باقیماندہ زندگی گزارتے ہیں جن کیلئے پینشن کی محض پانچ ہزار 200 روپے کی رقم انکی ادویات کا ماہانہ خرچہ پورا کرنے کیلئے بھی کافی نہیں۔ سرکاری ملازمین پہلے اس حوالے سے مطمئن نظر آئے تھے کہ ایک لاکھ روپے تک کی ماہانہ آمدنی پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا تو انہیں ازخود ریلیف مل جائیگا مگر وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں صرف چار لاکھ روپے سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے سے سرکاری ملازمین کا یہ اطمینان بھی کافور ہوگیا۔ وزیراعظم اگر 18 کھرب 190‘ ارب روپے کے خسارے کے بجٹ کو یادگار بجٹ قرار دے رہے ہیں جس میں سرکاری ملازمین اور دیگر طبقات زندگی کے لوگوں کیلئے مزید مہنگائی کی راہ بھی ہموار کی گئی ہے تو اس بجٹ کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کا آئندہ انتخابات میں عوام کا دل جیتنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کا صرف ”ووٹ کو عزت دو“ والا نعرہ ہی تو انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتا۔

ای پیپر دی نیشن