لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے 56 کمپنیوں سے متعلق کیس میں پنجاب حکومت کو17 کمپنیوں کا ریکارڈ3 روز میں نیب کے حوالے کرنے اور کمپنیوں کے سربراہوں کو اضافی تنخواہ واپس کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ڈی جی نیب کو ہدائت کی کہ افسروں سے قانون کے مطابق تفتیش اور تحقیقات کی جائے۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے 56 کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ڈی جی نیب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے کمپنیوں کے معاملے پرتعاون نہیں کیا۔ 56 کمپنیوں میں سے تاحال 17 کا ریکارڈ نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فکرنہ کریں سارا ریکارڈ نیب کو ملے گا۔ تمام سربراہوں سے سول سرونٹ رولزکے تحت تنخواہ وصول کریں گے۔ اربوں روپے خرچ کردیئے صاف پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملی۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے کسی کو استعمال کرنے نہیں دیں گے،کمپنیاں بنا کر اپنوں کو نوازا گیا۔ چیف سیکرٹری صاحب! کاش آپ بھی کسی کمپنی کے سربراہ ہوتے، آپ کو بھی لاکھوں روپے تنخواہ ملتی۔ عدالت کے استفسار پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ نیب افسروں کی تضحیک کرتا ہے ان کو صبح سے شام تک بٹھایا جاتا ہے۔ عدالت نے ڈی جی نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی افسر کی تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی، نیب صرف قانون کے مطابق حاصل اختیارات کا استعمال کرے۔ اگر نیب کی جانب سے کسی بھی طرح کا اختیارات سے تجاوز ثابت ہوا تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ایک ہفتے میں عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ سروسز اسپتال پی آئی ایم ایس کو پاگل خانہ یا مینٹل اسپتال کہنے سے روکنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے انسٹیٹیوٹ کا دورہ کیا۔ شہریوں کی جانب سے شکایات پر جیف جسٹس نے صوبائی وزیر صحت اور انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس میں عدالتی معاون عائشہ حامد اور میاںظفر اقبال کلانوری نے رپورٹ پیش کی۔چیف جسٹس نے ہسپتال میں سو بیڈز پر مشتمل یونٹ فعال نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا۔عدالت نے ہائیکورٹ کو حکم امتناعی پر جلد فیصلہ کرنے اور معاملے پر میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس کے کیمپس پہنچنے پر ہسپتال انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔ہسپتال کے مختلف وارڈز کے دورہ کے دوران مریضوں کے لواحقین نے شکایات کے انبار لگا دیئے۔کچن اور وارڈز میں صفائی کے ناقص انتظامات پر چیف جسٹس پاکستان انتظامیہ پر شدید برہم ہوئے۔ چیف جسٹس نے خواجہ سلمان رفیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ پیچھے پیچھے کیوں ہیں۔آگے آئیں اور شکایات کا جواب دیں۔چیف جسٹس نے ہسپتال میں صاف پانی کی عدم فراہمی کا بھی نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لی۔ دورے کے دوران ہسپتال کی خاتون ڈاکٹر عائشہ نے چیف جسٹس کی گاڑی روک لی اور کہا کہ میرے بیٹے کو اغواءکر لیا گیا ہے بازیاب کرائیں۔ چیف جسٹس نے مسئلہ سنا تو ڈاکٹر عائشہ ان کے سامنے رونے لگیں۔ چیف جسٹس نے مینٹل ہسپتال میں کئی سال سے زیر علاج بھارتی خاتون اجمیرہ کی موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ یہ خاتون یہاں کیا کر رہی ہے بھارتی ایمبیسی سے رابطہ کر کے اسے واپس بھجوائیں۔ اب تک کے ہسپتالوں کے دوروں کے دوران سب سے بری حالت مینٹل ہسپتال کی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ریلوے کے خسارے کا آڈٹ کرا کر چھ ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت کے رو برو وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سیکرٹری ریلوے پیش ہوئے۔ وفاقی وزیر ریلوے نے استدعا کی کہ فاضل عدالت دس سال کا آڈٹ کرائے تاکہ پچھلی اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا فرق واضح ہو جائے۔ عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ آڈٹ برسر اقتدار لوگوں کا ہوتا ہے۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ آپ ہمارے قابل احترام چیف جسٹس ہیں۔ آپ کے اقدامات سے صرف عوام کو نہیں بلکہ حکومت کو بھی ریلیف ملا ہے۔ہم نے ریلوے کو اپنے پاں پر کھڑا کرنے کے لیے بڑی محنت کی ہے۔ ہم سب مایوسی کا شکار ہیں اس لیے آپ دوجملے تعریف کے بول دیں۔ چیف جسٹس نے کہا اپنے جملے میں سے قابل احترام کا لفظ نکال دیں۔ عدالت میں قابل احترام کہنے سے آپ کی بات میں تضاد محسوس ہوتا ہے۔ قابل احترام عدالت کے اندر کہا جائے تو باہر بھی سمجھا جائے۔ آڈٹ رپورٹ ٹھیک آنے کے بعد تعریف بھی کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسا نظام وضع کر کے جائیں تاکہ بعد میں آنے والا کوئی من مانی نہ کر سکے۔ سماعت کے آغاز پر سیکرٹری ریلوے کی جانب سے پریزینٹیشن دی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے وزیر کہاں ہیں؟ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ آج انہیں عدالت نے طلب نہیں کیا اس لیے نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں کس نے استثنیٰ دیا۔ وزیرریلوے فوری طور پر عدالت میں پیش ہوں۔ ان کے سامنے بات ہو گی۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے غیر قانونی شادی ہالز سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پنجاب حکومت کو ایل ڈی اے کی رپورٹ کی روشنی میں قانون سازی کی ہدایت کر دی۔ سمبڑیال میں نمائندہ نوائے وقت قتل کیس میں آئی جی کو مرکزی ملزم کی گرفتاری کےلئے پندرہ روز کی مہلت دے دی۔ ایل ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ گنجان آباد علاقوں میں قائم شادی ہالز کو پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کی مہلت دی ہے جبکہ نئے بننے والے شادی ہالز کم از کم چار کنال رقبے پر تعمیر ہوں گے جن میں پارکنگ کی سہولت لازمی ہو گی۔ سپریم کورٹ نے سمبڑیال میں نوائے وقت کے نمائندہ ذیشان بٹ کے قتل کیس میں مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے لیے15 دن کی مزید مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب خود احساس کریں معاملہ کتنا حساس ہے۔ آئی جی نے جواب میں کہا کہ ابھی تک مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکے۔ سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں اور وکلاءسے خطاب میں جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انصاف کی فوری فراہمی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے نظام عدل میں موثر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی کا معیار انتہائی مایوس کن ہے۔ اگر اس حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرے گی تو عدالت کو مجبوراً کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ ادارہ برائے ذہنی صحت میں مریضوں کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہے۔ میرے آنے کی اطلاع ہونے کے باوجود وہاں کی انتظامیہ صفائی اور دوسری سہولیات کے معیار کو بہتر نہیں بنا سکی۔ آپ میرے لئے دعا کریں کہ ان کو خدا مہلت اور صحت دے اور ان میںہمت قائم رہے اور وہ دُکھی انسانیت کے مسائل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ وکلاءنے جس عزت سے نوازا ہے وہ خدا اور ان کے شکر گزار ہیں۔ وہ اکیلے اس سسٹم کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔اس لئے مہربانی فرما کر میرا ساتھ دیں۔بار ایسوسی ایشن میں مختلف گروپ بنائیں جو عوام کو انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرنے کےلئے تجاویز دیں۔ وہ آج تک خاموش نہیں رہے جو بھی ان کے ذہن میں آئے وہ اس کا ضرور اظہار کرتے ہیں۔ ان کے آنسو بھی کبھی نہیں نکلے مگر آج آپ لوگوں کی طرف سے دی جانے والی عزت دیکھ کر آبدیدہ ہو گیا ہوں۔ شاید وہ پہلے چیف جسٹس ہیں جن کی بار روم میں تصویر لگائی گئی ہے۔ انصاف کی فراہمی کے عمل کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنا ان کی ترجیح ہے۔ سینئر وکلاء لاء ریفارمز کے لیے تجاویز دیں۔ سپریم کورٹ بار کے وکلاءرہنماﺅںنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا برادری چیف جسٹس کے تمام اقدامات اور فیصلوں کی تائید کرتی ہے۔ اس سے پہلے بار روم میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی تصویر کی رونمائی بھی کی گئی۔ وکلا ءنے چیف جسٹس کی حمایت میں نعرے لگائے۔ جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری افسروں، ججوں، ملازمین کی لگژری گاڑیوں کیخلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے تو مجھے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے۔ اگر قانون اجازت نہیں دیتا تو عدالتی شخصیت کو لینڈکروز کیوں دی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں لینڈکروز دی تو سب لیں گے ۔چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مختلف اداروں کے پاس لگژری گاڑیاں موجود ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ گاڑیاں دینے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟،چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ گاڑیاں دینے کا متعلقہ بورڈ فیصلہ کرتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ بورڈ کو بلالیں،کمپنیوں میں کام کرنے والے بیوروکریٹس وصول کی گئی زیادہ رقم واپس کرنے کیلئے تیاررہیں۔رقم واپسی کیلئے زیادہ وقت نہیں دیا جائےگا۔ ادھر سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد نے سندھ کول اتھارٹی میں کرپشن کی انکوائری رپورٹ پیش نہ کیے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عدالت نے انکوائری رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس گلزار احمد نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سرور خان سے کہا سندھ میں کیا ہو رہا ہے۔ کتنے ظالم لوگ ہیں آپ ایک ایک پائی کھا جاتے ہیں، کیا اپنے علاقے سے محبت نہیں۔ پتہ ہے پورے ملک میں سندھ کے بارے میں کیا تاثر ہے کیا ہم بتائیں کہ آپ کے بارے میں اسلام آباد میں بیٹھ کر کیا کچھ سننے کو ملتا ہے۔ تھر میں بھوک سے بچے مررہے ہیں۔ کھانے کو کچھ نہیں، تعلیم ہے نہ کھانے کو کچھ ہے۔ 10 ، 15 ارب کہاں گئے، کس کے اکاﺅنٹ میں گئے۔ کچھ پتہ نہیں، اتنا پیسہ سندھ کے عوام پر لگ جاتا تو صوبے کی حالت بدل جاتی۔ بتایا جائے یہ پیسہ کس کے اکاﺅنٹ میں گیا۔ کیا سمجھتے ہیں ہمیں کچھ علم نہیں۔ باقی صوبوں میں 50 فیصد لگ بھی جاتا ہوگا مگر یہاں سب لوٹ لیا جاتا ہے۔ کیا معاملہ نیب کو بھیج دیں۔ آپ خود اپنے صوبے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ تھر کا سینہ چیر کر کوئلہ نکال کر انہیں مزید تباہ کررہے ہیں۔ سندھ حکومت نے ہر چیز پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کیا کرپشن کا سدباب ہمارا کام ہے؟، حکومت کہاں ہے؟ ہمیں کن کاموں میں الجھا دیا گیا۔عدالت نے سندھ کول اتھارٹی میں بے ضابطگیوں کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سندھ حکومت کو حکم دیا ایک ماہ میں بتائیں پیسہ کہاں گیا۔ کتنے منصوبے بنائے گئے اور کتنی رقوم جاری ہوئیں۔ کس منصوبے پر کیا پیش رفت ہوئی۔ پروجیکٹ کی تصاویر بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔
چیف جسٹس
عوام کیلئے سہولتیں مایوس کن‘ سرکار ذمہ داری نہ نبھائے تو عدالت کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے : چیف فجسٹس
لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے 56 کمپنیوں سے متعلق کیس میں پنجاب حکومت کو17 کمپنیوں کا ریکارڈ3 روز میں نیب کے حوالے کرنے اور کمپنیوں کے سربراہوں کو اضافی تنخواہ واپس کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ڈی جی نیب کو ہدائت کی کہ افسروں سے قانون کے مطابق تفتیش اور تحقیقات کی جائے۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے 56 کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ڈی جی نیب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے کمپنیوں کے معاملے پرتعاون نہیں کیا۔ 56 کمپنیوں میں سے تاحال 17 کا ریکارڈ نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فکرنہ کریں سارا ریکارڈ نیب کو ملے گا۔ تمام سربراہوں سے سول سرونٹ رولزکے تحت تنخواہ وصول کریں گے۔ اربوں روپے خرچ کردیئے صاف پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملی۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے کسی کو استعمال کرنے نہیں دیں گے،کمپنیاں بنا کر اپنوں کو نوازا گیا۔ چیف سیکرٹری صاحب! کاش آپ بھی کسی کمپنی کے سربراہ ہوتے، آپ کو بھی لاکھوں روپے تنخواہ ملتی۔ عدالت کے استفسار پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ نیب افسروں کی تضحیک کرتا ہے ان کو صبح سے شام تک بٹھایا جاتا ہے۔ عدالت نے ڈی جی نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی افسر کی تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی، نیب صرف قانون کے مطابق حاصل اختیارات کا استعمال کرے۔ اگر نیب کی جانب سے کسی بھی طرح کا اختیارات سے تجاوز ثابت ہوا تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ایک ہفتے میں عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ سروسز اسپتال پی آئی ایم ایس کو پاگل خانہ یا مینٹل اسپتال کہنے سے روکنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے انسٹیٹیوٹ کا دورہ کیا۔ شہریوں کی جانب سے شکایات پر جیف جسٹس نے صوبائی وزیر صحت اور انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس میں عدالتی معاون عائشہ حامد اور میاںظفر اقبال کلانوری نے رپورٹ پیش کی۔چیف جسٹس نے ہسپتال میں سو بیڈز پر مشتمل یونٹ فعال نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا۔عدالت نے ہائیکورٹ کو حکم امتناعی پر جلد فیصلہ کرنے اور معاملے پر میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس کے کیمپس پہنچنے پر ہسپتال انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔ہسپتال کے مختلف وارڈز کے دورہ کے دوران مریضوں کے لواحقین نے شکایات کے انبار لگا دیئے۔کچن اور وارڈز میں صفائی کے ناقص انتظامات پر چیف جسٹس پاکستان انتظامیہ پر شدید برہم ہوئے۔ چیف جسٹس نے خواجہ سلمان رفیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ پیچھے پیچھے کیوں ہیں۔آگے آئیں اور شکایات کا جواب دیں۔چیف جسٹس نے ہسپتال میں صاف پانی کی عدم فراہمی کا بھی نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لی۔ دورے کے دوران ہسپتال کی خاتون ڈاکٹر عائشہ نے چیف جسٹس کی گاڑی روک لی اور کہا کہ میرے بیٹے کو اغواءکر لیا گیا ہے بازیاب کرائیں۔ چیف جسٹس نے مسئلہ سنا تو ڈاکٹر عائشہ ان کے سامنے رونے لگیں۔ چیف جسٹس نے مینٹل ہسپتال میں کئی سال سے زیر علاج بھارتی خاتون اجمیرہ کی موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ یہ خاتون یہاں کیا کر رہی ہے بھارتی ایمبیسی سے رابطہ کر کے اسے واپس بھجوائیں۔ اب تک کے ہسپتالوں کے دوروں کے دوران سب سے بری حالت مینٹل ہسپتال کی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ریلوے کے خسارے کا آڈٹ کرا کر چھ ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت کے رو برو وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سیکرٹری ریلوے پیش ہوئے۔ وفاقی وزیر ریلوے نے استدعا کی کہ فاضل عدالت دس سال کا آڈٹ کرائے تاکہ پچھلی اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا فرق واضح ہو جائے۔ عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ آڈٹ برسر اقتدار لوگوں کا ہوتا ہے۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ آپ ہمارے قابل احترام چیف جسٹس ہیں۔ آپ کے اقدامات سے صرف عوام کو نہیں بلکہ حکومت کو بھی ریلیف ملا ہے۔ہم نے ریلوے کو اپنے پاں پر کھڑا کرنے کے لیے بڑی محنت کی ہے۔ ہم سب مایوسی کا شکار ہیں اس لیے آپ دوجملے تعریف کے بول دیں۔ چیف جسٹس نے کہا اپنے جملے میں سے قابل احترام کا لفظ نکال دیں۔ عدالت میں قابل احترام کہنے سے آپ کی بات میں تضاد محسوس ہوتا ہے۔ قابل احترام عدالت کے اندر کہا جائے تو باہر بھی سمجھا جائے۔ آڈٹ رپورٹ ٹھیک آنے کے بعد تعریف بھی کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسا نظام وضع کر کے جائیں تاکہ بعد میں آنے والا کوئی من مانی نہ کر سکے۔ سماعت کے آغاز پر سیکرٹری ریلوے کی جانب سے پریزینٹیشن دی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے وزیر کہاں ہیں؟ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ آج انہیں عدالت نے طلب نہیں کیا اس لیے نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں کس نے استثنیٰ دیا۔ وزیرریلوے فوری طور پر عدالت میں پیش ہوں۔ ان کے سامنے بات ہو گی۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے غیر قانونی شادی ہالز سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پنجاب حکومت کو ایل ڈی اے کی رپورٹ کی روشنی میں قانون سازی کی ہدایت کر دی۔ سمبڑیال میں نمائندہ نوائے وقت قتل کیس میں آئی جی کو مرکزی ملزم کی گرفتاری کےلئے پندرہ روز کی مہلت دے دی۔ ایل ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ گنجان آباد علاقوں میں قائم شادی ہالز کو پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کی مہلت دی ہے جبکہ نئے بننے والے شادی ہالز کم از کم چار کنال رقبے پر تعمیر ہوں گے جن میں پارکنگ کی سہولت لازمی ہو گی۔ سپریم کورٹ نے سمبڑیال میں نوائے وقت کے نمائندہ ذیشان بٹ کے قتل کیس میں مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے لیے15 دن کی مزید مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب خود احساس کریں معاملہ کتنا حساس ہے۔ آئی جی نے جواب میں کہا کہ ابھی تک مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکے۔ سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں اور وکلاءسے خطاب میں جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انصاف کی فوری فراہمی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے نظام عدل میں موثر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی کا معیار انتہائی مایوس کن ہے۔ اگر اس حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرے گی تو عدالت کو مجبوراً کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ ادارہ برائے ذہنی صحت میں مریضوں کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہے۔ میرے آنے کی اطلاع ہونے کے باوجود وہاں کی انتظامیہ صفائی اور دوسری سہولیات کے معیار کو بہتر نہیں بنا سکی۔ آپ میرے لئے دعا کریں کہ ان کو خدا مہلت اور صحت دے اور ان میںہمت قائم رہے اور وہ دُکھی انسانیت کے مسائل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ وکلاءنے جس عزت سے نوازا ہے وہ خدا اور ان کے شکر گزار ہیں۔ وہ اکیلے اس سسٹم کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔اس لئے مہربانی فرما کر میرا ساتھ دیں۔بار ایسوسی ایشن میں مختلف گروپ بنائیں جو عوام کو انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرنے کےلئے تجاویز دیں۔ وہ آج تک خاموش نہیں رہے جو بھی ان کے ذہن میں آئے وہ اس کا ضرور اظہار کرتے ہیں۔ ان کے آنسو بھی کبھی نہیں نکلے مگر آج آپ لوگوں کی طرف سے دی جانے والی عزت دیکھ کر آبدیدہ ہو گیا ہوں۔ شاید وہ پہلے چیف جسٹس ہیں جن کی بار روم میں تصویر لگائی گئی ہے۔ انصاف کی فراہمی کے عمل کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنا ان کی ترجیح ہے۔ سینئر وکلاء لاء ریفارمز کے لیے تجاویز دیں۔ سپریم کورٹ بار کے وکلاءرہنماﺅںنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا برادری چیف جسٹس کے تمام اقدامات اور فیصلوں کی تائید کرتی ہے۔ اس سے پہلے بار روم میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی تصویر کی رونمائی بھی کی گئی۔ وکلا ءنے چیف جسٹس کی حمایت میں نعرے لگائے۔ جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری افسروں، ججوں، ملازمین کی لگژری گاڑیوں کیخلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے تو مجھے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے۔ اگر قانون اجازت نہیں دیتا تو عدالتی شخصیت کو لینڈکروز کیوں دی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں لینڈکروز دی تو سب لیں گے ۔چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مختلف اداروں کے پاس لگژری گاڑیاں موجود ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ گاڑیاں دینے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟،چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ گاڑیاں دینے کا متعلقہ بورڈ فیصلہ کرتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ بورڈ کو بلالیں،کمپنیوں میں کام کرنے والے بیوروکریٹس وصول کی گئی زیادہ رقم واپس کرنے کیلئے تیاررہیں۔رقم واپسی کیلئے زیادہ وقت نہیں دیا جائےگا۔ ادھر سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد نے سندھ کول اتھارٹی میں کرپشن کی انکوائری رپورٹ پیش نہ کیے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عدالت نے انکوائری رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس گلزار احمد نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سرور خان سے کہا سندھ میں کیا ہو رہا ہے۔ کتنے ظالم لوگ ہیں آپ ایک ایک پائی کھا جاتے ہیں، کیا اپنے علاقے سے محبت نہیں۔ پتہ ہے پورے ملک میں سندھ کے بارے میں کیا تاثر ہے کیا ہم بتائیں کہ آپ کے بارے میں اسلام آباد میں بیٹھ کر کیا کچھ سننے کو ملتا ہے۔ تھر میں بھوک سے بچے مررہے ہیں۔ کھانے کو کچھ نہیں، تعلیم ہے نہ کھانے کو کچھ ہے۔ 10 ، 15 ارب کہاں گئے، کس کے اکاﺅنٹ میں گئے۔ کچھ پتہ نہیں، اتنا پیسہ سندھ کے عوام پر لگ جاتا تو صوبے کی حالت بدل جاتی۔ بتایا جائے یہ پیسہ کس کے اکاﺅنٹ میں گیا۔ کیا سمجھتے ہیں ہمیں کچھ علم نہیں۔ باقی صوبوں میں 50 فیصد لگ بھی جاتا ہوگا مگر یہاں سب لوٹ لیا جاتا ہے۔ کیا معاملہ نیب کو بھیج دیں۔ آپ خود اپنے صوبے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ تھر کا سینہ چیر کر کوئلہ نکال کر انہیں مزید تباہ کررہے ہیں۔ سندھ حکومت نے ہر چیز پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کیا کرپشن کا سدباب ہمارا کام ہے؟، حکومت کہاں ہے؟ ہمیں کن کاموں میں الجھا دیا گیا۔عدالت نے سندھ کول اتھارٹی میں بے ضابطگیوں کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سندھ حکومت کو حکم دیا ایک ماہ میں بتائیں پیسہ کہاں گیا۔ کتنے منصوبے بنائے گئے اور کتنی رقوم جاری ہوئیں۔ کس منصوبے پر کیا پیش رفت ہوئی۔ پروجیکٹ کی تصاویر بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔
چیف جسٹس