شجر سایہ دار۔ الحاج میاں عبدالکریم

احباب کی یادیں انسانی زندگی کا قابل قدر اثاثہ ہوتی ہیں، میری یادوں کی کتاب میں سب سے زیادہ نمایاں باب آپ کا ہے، ان کے ساتھ میرا تعلق ایک بھائی کے طور پر رہا لیکن احترام میں، میں نے انہیں اپنے والد محترم کے برابر سمجھا، اس لئے کہ آپ میرے مرحوم والد کے ساتھ بھائیوں کی طرح کی تعلق داری کے اس رشتہ میں جڑے تھے جو امرتسر سے چلتا تھا۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران میرا ان کے ساتھ روزانہ ہی رابطہ رہا، میں اپنے دفتر ریل بازار سے کوتوالی روڈ بینک بسلسلہ امپورٹ لیٹر آف کریڈٹ کھولنے و دیگر امور جاتا تھا اور واپسی پر ان کے ساتھ بارہ ساڑھے بارہ بجے کے درمیان نشست رہتی، میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، وہ ہر وقت حوصلہ مندی کی گفتگو کرتے، اور دوسروں کے لئے امید کا دیا نہ بجھنے دیتے، زندگی بھر ان کی یہ کوشش رہی کہ ہم میں سے ہر ایک کو ملک کی بہبودی عامہ اور ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے، اپنی ہمہ جہت خدمات کے تناظر میں وہ ایک ہیرو کی مانند ہیں جس میں لالچ، خود پسندی اور پیسے کی ہوس قطعی نہ تھی ہر ایک کو انہوں نے دل کے صاف شیشے کی نظر سے دیکھا جو کہ ایک صوفی کا خاصہ ہوتا ہے۔
سیاسی سماجی علمی مذہبی حوالہ جات میں ان کی خدمات میں سب سے زیادہ منور بات جو انہیں نمایاں کرتی ہے وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ان کا والہانہ عشق ہے، اس عشق کا اظہار ان کی کتاب محمد ﷺ دوسروں کی نظر میں سے ملتا ہے جس کے کئی ایڈیشن شائع کروا کر انہوں نے عاشقان رسول ﷺ میں تقسیم کئے، یہی عشق انہیں ملک میں اسلامی نظام کے لئے بھی لایا، ملک میں چلنے والی دو تحریکوں میں نمایاں کام کر کے انہوں نے ملک گیر شہرت حاصل کی، پہلی تحریک نظام مصطفیٰ تھی جو سوشلزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف چلائی گئی، اس میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، تحریر و تقریرکے ساتھ ساتھ جلسے جلوسوں کے احتجاج میں ہر اول دستے کے طور پر آگے رہے، اسی تحریک کے دوران جب پولیس کا بڑا لاٹھی چارج ہوا بازو ٹوٹ گیا، لیکن پلستر لگے بازو کے ساتھ ہر روز تحریکی جلوس میں شامل رہے، دوسری تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں تھی جس کے تحت آپ نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس حوالہ سے کئی کتب بھی لکھیں، فیصل آباد میں فرقہ واریت اورمذہبی منافرت کے حوالہ سے جب حکومت کی طرف سے بین المذاہب کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا آپ نے اس کے لئے ایک فعال کارکن کے طور پر نمایاں کارکردگی کے ساتھ کام کیا۔
دین اسلام کے فروغ کے عشق میں اللہ تبارک تعالیٰ نے انہیں توفیق بخشی کہ آپ نے اپنے خرچہ سے کئی اطراف میں مساجد بنوائیں، زندگی کی آخری بڑی مسجد انہوں نے عمر فاروق کے نام سے کچہری بازار میں بنائی اور اس مسجد کی مکمل تکمیل کے دور روز بعد دنیا سے رخصت ہو گئے، ایک انگریز مصنف تھامس کلیری نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا انگریزی ترجمہ کیا ہے، اس کتاب کا نام Living And Dying With Grace ہے، زندہ رہو یا رخصت ہو جائو مگر شان سے…، میں سمجھتا ہوں کہ یہ الفاظ آپ کی حیات و خدمات کے بھرپور عکاس ہیں، زندگی بھر آپ کی یہ کوشش رہی کہ نظریہ پاکستان کو اس کی عملی تعبیر میں ڈھالا جائے، عوامی مسائل کے حل کی تڑپ میں ان کی نشاندہی اخباری بیانات کے ذریعے کرتے، کہتے ہیں کہ روشن ستارے جب غروب ہو جاتے ہیں تو ان کی روایات کو ز ندہ رکھنا ان کی اولاد کا کام ہوتا ہے، آپ اس معاملہ میں بھی بہت خوش قسمت تھے کہ جب جناب مجید نظام مرحوم کی خواہش پر انہوں نے فیصل آباد میں نظریہ پاکستان فورم کی داغ بیل ڈالی تو اسے ملک بھر میں کامیاب ترین فورم کے طور پر متعارف کروایا جس پر انہوں نے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے مجاہد تحریک پاکستان کا اعزاز دیا، اس فورم کے تمام انتظامی امور کی نگرانی ان کے بیٹے میاں عبدالوحید کرتے تھے، جب بھی کوئی تقریب ختم ہوتی چہرے کی خوشی بیٹے کی کارکردگی کو ظاہر کرتی۔
ایک یونانی کہاوت ہے کہ دنیا مردان الواجو لوگ اپنی آسائشیں راحتیں قوم ملک اور انسانیت کی خدمت پر قربان کرتے ہیں انہیں بہت بڑی شہرت اور نیک نامی حاصل ہوتی ہے، انہیں بڑے شاندار مزار نصیب ہوتے ہیں۔ مرمر کی سلوں کے مزار نہیں بلکہ نوع انسانی کے دلوں میں جہاں ا ن کی عظمت کی یاد ہمیشہ تازہ رہتی ہے، فیصل آباد قیام پاکستان کے بعد سے قابل فخر سماجی رہنمائوں کا گڑھ رہا ہے، لیکن جوں جوں یہ شخصیات ہم سے رخصت ہوتی رہیں ان کی کمی بڑھتی جا رہی ہے میری نظر میں آپ ایک ہردلعزیز آخری بزرگ سماجی رہنما تھے جن کی کمی شدت سے محسوس ہوتی رہے گی، دعا ہے اللہ تبارک تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائیں اور ہم سب کو بھی یہ توفیق بخشے کہ ہم بھی خدمت انسانی کا فریضہ سرانجام دینے میںبخل سے کام نہ لیں، جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی تڑپ اس طرح یاد رہتی ہے کہ:
عیداں تے شبراتاں آئیاں
سارے لوگ گھراں نوں آئے
اونیئں آئے محمد بخشا
جھیڑے آپ ہتھی دفنائے

ای پیپر دی نیشن