بدلتی عالمی صورتحال اور پاکستان

Apr 29, 2018

2012ء کے عرب سپرنگ کے بعد سے شام سنبھل نہیں سکا۔ 2012 کے اس عرب سپرنگ نے جہاں مشرق وسطی کی داخلی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا وہاں عالمی سیاست میں بھی بھونچال پیدا کر دیا۔ عرب سپرنگ کی اس لہر سے مشرق وسطی کے رہنے والوں کو تو فائدہ ہوا یا نہیں مگر یہ لہر بیرونی طاقتوں کے لیے ضرور فائدہ مند ثابت ہوئی کیونکہ مصر، شام اور لیبیاء جیسے ممالک اس احتجاج کی آڑ میں خانہ جنگی کا شکار ہو گئے اور ان تین ممالک کے پاس طاقت ور افواج تھیں جو اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی ہونے کے بعد صورتحال پر قابو نہ پا سکیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی ہی عوام کی نظروں میں گر گئیں۔شام مشرق وسطی کا وہ ملک ہے جہاں کی لیڈر شپ نے 2012 کے بعد سے اس احتجاج کا سامنا کیا ہے بلکہ روز برو ز بگڑتے حالات پر اپنے ہمنواوں روس اور ایران کی مدد سے کافی حد تک ملک کے کچھ علاقوں میں صورتحال پر قابو پا لیا تھا اور داعش سمیت دوسری دہشت گردی تنظیموں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر یک دم حالات نے پلٹا کھایا جب 14 اپریل 2018 کی الصبح امریکا، برطانیہ اور فرانس نے ملکر جو تینوں شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کے مخالف ہیں یکے بعد دیگرے 100 سے زائد میزائل حملوں اور کارپٹ بمباری سے شام کے تحقیقی کیمیائی ریسرچ سنٹرز پر حملہ کر دیا۔ اس اچانک حملے کی اطلاع روس کو بھی نہیں دی گئی تھی اور یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ خود شام کی قیادت بھی اس کی ٹائمنگ نہ سمجھ سکی شام کے صدر نے فوری انٹرویو میں یہ بیان دیا کہ امریکا اور اتحادیوں (برطانیہ اور فرانس) کا یہ حملہ سیاسی حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ختم کر سکتا ہے۔ جہاں شامی صدر نے اس حملے کو ناکام بنانے کا دعوی کیا اور کہا کہ انکی افواج نے حملے میں فائر کیے گئے درجن سے زائد میزائلوں کو ائر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے ہوا میں ہی تباہ کیا وہاں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ایک کامیاب آپریشن قرار دیا ہے جسکا واضع مقصد شام کے صدر کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کو اپنی ہی عوام کے خلاف استعمال نہ کریں۔ مگر بطور ریسرچ طالب علم میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ امریکا کے اس اچانک حملے کا مقصد روس کو یہ واضع پیغام دینا تھا کہ وہ شام کوکسی صورت بھی اپنے ہاتھوں سے نکلنے کا موقع نہیں دے گا۔ اقوام متحدہ میں امریکا کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے بھی اس طرف اشارہ دیا تھا کہ شام امریکا کے لیے ایران پر نظر رکھنے کے لیے مشرق وسطی میں سب سے بہترین جگہ ہے۔ ناسا کی جانب سے ملنے والی تصاویر کے مطابق اس اچانک حملے سے شام کا زبر دست نقصان ہوا ہے۔ شام پر اس حملے کے ذریعے ایران کو بھی خبردار کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ولادی میر پیوٹن نے واضع اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے مغرب اور امریکا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب وہ روس کو دوبارہ سے پہلی جیسی پاور بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو اور تیز کر دیں گے۔بلاشبہ 14 اپریل کا یہ حملہ عالمی سیاست میں ہل چل پیدا کر دے گا۔ حال ہی میں چین نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ روس سے اظہار یکجہتی کے لیے تائیوان کے سمندروں میں آئندہ ماہ بحری مشقیں کرے گا۔ جسکا مقصد صرف اور صرف ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ پیغام دینا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی مستقبل میں چین سے ''تجارتی جنگ'' کرنے کا اشارہ دے چکے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے بہت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے اور جہاں اس حملے کی کھل کر مخالفت نہ کی ہے وہاں ہی اس حملے کی حمایت بھی نہ کی ہے اور شام کے معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان کو یہ بات یاد رکھنا ہو گی کہ جہاں وہ ابتک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی ہے وہیں اب اسکے تعلقات روس سے بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں روس نے پاکستان کو چار MI-35 ہیلی کاپٹر فروخت کیے ہیں جو پہاڑی علاقوں میں سرچ آپریشنز میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان عالمی سیاست کے بدلتے رنگوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو شام کے مسلئے سے دور ہی رکھے جہاں اسکا کوئی سٹریٹیجک فائدہ نہ ہے اور کسی طور پر بھی اس صورتحال مین فریق بننا پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہ ہے۔ پاکستان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ امریکا کے ساتھ ساتھ اب سی پیک کی وجہ سے اس کے تعلقات کمیونسٹ چین اور روس سے بھی مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع تلاش کرنے کی کوششیں کرنا ہو نگی اور اس بدلتی عالمی سیاست میں اپنی جغرافیائی اہمیت کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہو گا۔

مزیدخبریں