صاف پانی اورمال پانی

درختوں سے پتے خزاں میں گرتے ہیں۔ نظروں سے گرنے کا کوئی موسم نہیں ۔ تو کیا گورنر پنجاب بھی۔۔۔۔؟ ویسے نئے گورنر پنجاب کیلئے رائے عزیز اللہ اور اسحاق خاں خاکوانی کے نام سننے میں آرہے ہیں۔ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے آج کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آنے والے چار ماہ کے دوران جانے والے ہیں۔ جاوید ہاشمی پر کرپشن کا کوئی خاص الزام نہیں۔ ان کے خلاف نیب میں بھی کوئی انکوائری نہیں ہو رہی ۔ پھر اللہ جانے عمران خان کے جانے کے خواب کیوں دیکھتے ہیں۔ شاید یہ جمہوریت پرست دوبارہ اسی موسم کے انتظار میں ہیں جب وہ جاتی عمرہ چڑیوں ہاتھ سندیسے اور کاگوں ہاتھ سلام بھجوایا کرتے تھے ۔ادھر سے کوئی جواب تو کیاخط پتر کی واپسی رسید بھی نہ ملا کرتی تھی ۔ جاوید ہاشمی عمران خان کے مستعفی ہونے کے خواب دیکھنا چھوڑیں ۔ وہ پوری طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کی سنیے۔ ’’جب تک زندہ ہوں لٹیروں کو معاف نہیں کروں گا۔سب کرپٹ ایک طرف جمع ہیں۔ میں اکیلا ان کا مقابلہ کروں گا‘‘۔ البتہ گورنر پنجاب کی پریس کانفرنس دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔ کہتے ہیں ’’نہ ہی استعفیٰ دوں گا اور نہ ہی میدان چھوڑوں گا‘‘۔ گورنر پنجاب نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک انکشاف اور بھی کیا ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر میرے کچھ فیصلے مان لئے جاتے تو پنجاب میں تحریک انصاف کی دو تہائی اکثریت ہوتی ۔ان کے فیصلے2018کے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں تھے ۔ شاید ان کے دل میں ابھی ٹکٹ کے خواہشمندوں سے سرور فائونڈیشن کیلئے چندہ وصولنے کی کوئی حسرت باقی ہے ۔ اس مرحلہ پر یہ لکھنا ضروری ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کو میسر ساری اکثریت بنی غالہ جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر پہنچی تھی ۔ لیکن برطانیہ پلٹ اس ذہین سیاستدان کو داد دیجئے ۔ وہ کوئی ایک آزاد ممبر اسمبلی بھی تحریک انصاف میں نہیں لا سکے ۔ لیکن دعویدار ہیں کہ اگر ان کے فیصلے مان لئے جاتے تو الیکشن میں تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت ضرور مل جاتی ۔ گورنر شپ ایک آئینی پوسٹ ہے ۔ لیکن انہیں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے ادھر اُدھر تانک جھانک کا زیادہ مسئلہ ہے ۔تبھی وہ گلہ گزار ہیں کہ اگر سبھی کام جہانگیر ترین نے ہی کرنے ہیں تو کیا پھر میں نے آلو چھولے بیچنے ہیں؟ گوجرانوالہ اور فیصل آباد سمیت پنجاب کے اہم بڑے شہروں کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین انہوں نے اپنے پسندیدہ بندے لگوائے ہوئے ہیں۔ سرور فائونڈیشن کیلئے ٹائون ڈویلپروں سے کروڑوں روپے چندہ اکٹھا کیا گیا ہے۔ چندہ اکٹھا کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ شوکت خانم ہسپتال کیلئے ڈھیروں چندہ عمران خان کی شخصیت کے سحر اور ان کے بے پایاں خلوص کے باعث اکٹھا ہو گیا تھا۔ مجید لاہوری نے کہا ہے :
ستارہ ڈانس میں لاکھوں روپے کما لائی
جناب شیخ کو چندے میں ایک آنہ ملا
اگر گورنر شپ اور ڈویلپمنٹ اتھارٹیز درمیان میں نہ ہوں تو سرور فائونڈیشن کیلئے اتنا بھرپور چندہ اکٹھا کرنا ممکن نہیں تھا۔ ’’جناب شیخ‘‘ کو چندے میں بمشکل ایک آنہ ہی ہاتھ آنا تھا۔ نیب تحقیقات کرے کہ ٹائون ڈویلپروں کا سرور فائونڈیشن کو دیا گیا چندہ، چندہ ہے یا اپنے خلاف مقدمات میں رعایت حاصل کرنے کیلئے ’’ہدیہ‘‘ اللہ عظیم خاتون محترمہ نائلہ باقر ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کا بھلا کرے ،انہوں نے ایک اہم راز فاش کر دیا ہے ۔یہ راز آج تک راز ہی تھا۔کہ پنجاب پرائیویٹ ہائوسنگ سکیم و لینڈ سب ڈویژن رولز 2010 کے مطابق تمام ڈویلپرز اپنی سوسائٹیز کا تمام سہولیات سے مزین بیس فیصد رقبے سے پانچ مرلہ تک کے پلاٹس پندرہ ہزار ماہانہ آمدنی والے افراد کو غیر نفع بخش طریقہ سے دینے کے پابند ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ عوام تو کیا خواص کوبھی اس قانون سے بے خبررکھا گیا ہے۔کیا پنجاب کے ہائوسنگ کے وزیر میاں محمودالرشید اس سلسلہ میں عوام کی آگاہی کے لئے کوئی سرکاری اعلان شائع کروانا پسند فرمائیں گئے؟آج تک ان 20%رقبہ کے پلاٹوں میں سے غریبوں کو کوئی ایک پلاٹ بھی نہیں ملا۔ عوام کو ہیپاٹائٹس سے ڈراتے ہوئے صاف پانی کے لئے انہی ڈویلپروں سے کروڑوں روپے چندہ لینے والے گورنرپنجاب کو علم ہونا چاہیے کہ کسی غریب کے لئے ہیپاٹائٹس کے باعث آئی ہوئی موت بھی خوشگوار ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنے آنگن میں یا اپنی چھت تلے آجائے۔ ایک بات اور بھی ہے عمران خاں کو ہر برس شوکت خانم کے لئے فنڈ ریزنگ کی مہم سرکرنا پڑتی ہے۔ انہیں شایدسرکاری اہتمام سے سرور فائونڈیشن کی کی فنڈ ریزنگ اچھی نہیں لگی۔ اسی لیے ان کی طرف سے گورنر پنجاب کو ملاقات کا وقت نہ دینا ،نعیم الحق کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار اور اپنی کارکردگی بہتربنانے کی ہدایت ،یہ سب کچھ خوشگوار حالات کی خبر نہیں دے رہے۔ ہمارے ہاںعہدوں کی بندر بانٹ قابلیت کی بجائے پسند نا پسند پر کی جاتی ہے ۔ جسے پیا چاہے وہی سہاگن ۔ عمران خاں کی اسی سرد مہری کے باعث گورنر پنجاب مجبور ہوئے ہیں کہ وہ سرور فائونڈیشن کے تحت جمع شدہ کل رقم پنجاب گورنمنٹ کے حوالے کرنے کا اعلان کریں۔ اب دیکھئے وہ کتنی رقم پنجاب گورنمنٹ کے خزانہ میں جمع کرواتے ہیں۔ ویسے ایسے رفاعی اداروں کے حساب کتاب کے معاملات قدرے کمزور ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن