پاکستان کو صدارتی نہیں قرآن کے نظام کی ضرورت ہے: سراج الحق

لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ پاکستان کو صدارتی نہیں قرآن کے نظام کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک جغرافیہ نہیں ایک نظریہ اور عقیدہ ہے جس سے حکمران ستر سال سے غداری اور بے وفائی کر رہے ہیں۔ قرآن کے نظام میں کوئی بھوکا نہیں سوتا اور یہ نظام عام آدمی کو بھی حکمرانوں کے برابر کھڑا کردیتا ہے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والے مہربان الیکشن میں کامیابی پر بڑے خوش تھے کہ انہوں نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ بڑا کامیاب رہا لیکن 9 ماہ کے اندر ہی وہ پریشان ہو گئے ہیں کہ وہ کیسے نااہل اور نالائق لوگوں کو اقتدار پر مسلط کربیٹھے ہیں۔ وزراء آپس میں لڑ رہے ہیں۔ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کو خاتون کہہ کر پکارتے ہیں۔ کیسے گرے ہوئے اور اخلاق سے عاری لوگ ہیں۔ سیاسی لیڈر معاشرے اور آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتا ہے مگر یہاں تو ایسی اخلاقی گراوٹ ہے کہ معاشرے اور آئندہ نسلوں کے اخلاق کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ گالی گلوچ کے کلچر کو عام کیا جارہا ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی ناکامی سے دوچار ہے۔ پہلی حکومتوں کی نااہلی اور ناکامی دو چار سال گزرنے کے بعد سامنے آتی تھی مگر موجودہ حکومت کا 9ماہ میں ہی پتہ چل گیا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پشاور کے جناح پارک میں استقبال رمضان کے حوالے سے جماعت اسلامی پشاور کے پیغام قرآن اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان اور پشاور کے ضلعی امیر عتیق الرحمن نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر محمد اقبال خلیل اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی موجود تھے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ ستر سال سے پاکستان کے اقتدار پر قابض عالمی استعمار کی غلام اشرافیہ ملک میں قرآن و سنت کے نظام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن پاک چھوڑ دینے کی وجہ سے آج امت کو جس بے توقیری کا سامناہے ، اس کی وجہ سے کشمیر ، فلسطین اور برما سمیت چھ کروڑ مسلمانوں کو غلامی اور قتل و غارتگری کا سامنا ہے۔ ادھر کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس سراج الحق کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں سیاسی صورتحال کے بارے میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں مجلس شوریٰ نے موجودہ حکومت کی انتہائی مایوس کن کارکردگی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تبدیلی کے نعروں اور نیا پاکستان بنانے کے دعووں کے نام پر برسراقتدار آنے یا لائی جانے والی حکومت محض 9ماہ میں ہی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ موجودہ برسراقتدار حکومت نے اگرچہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کو اپنا ماڈل کہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے 9ماہ میں اس سمت ایک قدم بھی نہیں اٹھایا بلکہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح سودی معیشت‘ بیرونی قرضوں پر انحصار‘ عالمی اداروں کی تابعداری اور مغربی تہذیب کے فروغ کا ہی راستہ اپنا یا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے مرکزی شوریٰ کے ارکان اور سیکرٹری جنرل امیر العظیم کے ساتھ مشاورت کے بعد اظہر اقبال حسن‘ خالد رحمن‘ حافظ ساجد انور‘ سید وقاص جعفری اور محمد اصغر کو جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن