ویسے تو اللہ تعالیٰ کی ذات نے انسانوں کو بے پناہ نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے،ان سب میں سوچ کی صلاحیت بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے،یہ انسان کو حیوان سے جدا کرتی ہے،اسی لئے انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے،یعنی صاحب عقل و دانش۔
قرآن کریم کے اندر عقل کا لفظ 49مرتبہ استعما ل ہوا ہے،اور متفکر یعنی فکرکی دعوت 17مرتبہ دی گئی ہے،سوچ کی بھی پھر دو قسمیں ہیں،ایک سطحی سوچ اور دوسری گہری سنجیدہ سوچ،انسانی رویوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تویہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ سطحی سوچ والے انسان اپنے روزمرہ کے معمولات کی حد تک اپنی سوچ کو استعمال تو کرتے ہیں لیکن وہ اپنا دماغ استعمال کئے بغیر ہر دیکھی یا سنی بات پر بھی یقین کر لیتے ہیں،اگر وہ کسی اہم کرسی پر بدقسمتی سے متمکن ہوں تو شاطر صلاح کار ان کو سبز باغ دکھا کر غلط فیصلے کروا لیتے ہیں،جب اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے شروع ہوتے ہیں تو پھر ایک اور مفاد پرست صلاح کاروں کا ٹولہ اس مشکل گھڑی کو غنیمت جانتے ہوئے لیڈر کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ پہلے فیصلے پر یوٹرن لے یا اس کے برعکس چل پڑے،یہ سب کچھ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب اہم ذمہ داری پر مامور قائد صرف سطحی سوچ رکھتا ہو،اداروں اور ریاستوں پر اگر گہری سوچ سے عاری لوگ قابض ہوں تو کوئی بھی دیرپا پالیسی وضع نہیں ہو سکتی اور کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کل کیا ہونیوالا ہے،اس کے نتیجے میں افراتفری اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے،عوام مایوس ہو جاتے ہیں ان کا جینا محال ہو جاتا ہے،اور معیشت کا پہیہ بھی بہت دھیما پڑ جاتا ہے،بد قسمتی سے پاکستان آج کل ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے،صلاح کاروں کے غلط مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ایک معاشی ٹیم لگائی گئی،نو ماہ کا قیمتی وقت ضائع کر کے اس ٹیم کو بے توقیری سے فارغ کر دیا گیا،ٹیکس اکٹھا کرنیوالے محکموں میں بہت اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے،دو سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک ایف بی آر میں قیادت کی حد تک تبدیلیاں ہو رہی ہیں،جس سے ریونیو ٹارگٹ پورا نہیں ہو رہا ،جس سے ملکی خزانہ تباہی کے دہانے پر جا پہنچا ہے،2013میں ٹیکس وصولی کی سالانہ رقم 1900ارب روپے تھی،جس کو مسلم لیگ حکومت پانچ سالوں میں 3800ارب تک لے گئی،اب اس میںمزید اضافے کی اشد ضرورت ہے،چینی ،گندم اور انرجی کے سکینڈل آپکے سامنے ہیں،نو دولتی حضرات پہلے سرمایہ لگا کر حکومتی قیادت کو خریدتے ہیں۔
اسکے بعد لگائی ہوئی رقم تین چار گنا اضافے کیساتھ عوام کے پیٹ کاٹ کر پورا کر لیتے ہیں،اس سے اجتناب ضروری ہے اور ایسے ہوس پرستوں سے دور رہنا چاہئے،اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت عمران خان کی قیادت میں ملک کو بہتری کی طرف لے جانا چاہتی ہے ،ان کی خواہش سے کوئی بھی انکاری نہیں لیکن سوال خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت کا ہے،جس کا فقدان صاف نظر آر ہا ہے،موجودہ مشکل ترین معاشی صورتحال اور اس کے اوپر کورونا وائرس کی تباہ کن یلغار کا یہ تقاضا ہے کہ پوری قوم یکسوئی کیساتھ حکومت کی مدد اور اس کے ساتھ تعاون کرے،مخالف سیاسی جماعتیں میاں شہباز شریف کی قیادت میں ہر ممکن مدد کیلئے تیار ہیں،لیکن اس وقت قومی یکسوئی کیلئے تمام کوششوں کی کامیابی کی کنجی حکومتی رویوں میں ہے،تالی اس وقت بجے گی جب حکومتی ہاتھ بھی آگے بڑھے گا،اس کیلئے حکومتی قیادت کو رعونت ،ہٹ دھرمی اورذاتی مخاصمت کوبالائے طاق رکھنا ہوگا،دوسری قسم ان انسانوں کی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے گہری ،تجزیاتی،تخلیقی اور مثبت سوچ کے انمول تحفے سے نوازا ہوتا ہے،ایسے لوگ تنہائی میں بیٹھ کر سوچتے ہیں،اس طرح کی دور رس سوچ کے حامل اپنی گفتار کے نہیں بلکہ اپنے کردار کے غازی ہوتے ہیں،وہ کم بولتے ہیں لیکن ان کی باتیں وزن دار ہوتی ہیں،وہ ہوا میں محلات تعمیر کرنے کی بجائے قابل عمل منصوبے بناتے ہیں،اسی لئے ایک فرانسیسی فلاسفر ہنری برگسن نے کہا تھا کہ:
"Think as men of action and Act as men of thought"یعنی سوچ کر ایسی منصوبہ بندی کریں جو قابل عمل ہو ،اور عمل کرتے وقت بھی دانشمندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں،امریکا کے اٹھائیسویں صدر وڈ رو ولسن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بڑے پائے کے دانشور اور اعلیٰ درجے کے ناظم تھے۔ہمارے ملک میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ دور رس تھی،انہوں نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کا سوچا بلکہ عملی طور پر اپنی دیانتدار،اعلیٰ اور مخلص قیادت کی وجہ سے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک آزاد مسلمان ریاست پاکستان بھی تخلیق کر ڈالی،ان کو زمینی حقائق کا بخوبی علم تھا ،وہ ہماری تہذیب اور لوگوں کی امنگوں سے آشنا تھے اس لئے جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کی ریاست کا آئین کیسا ہوگا،تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اس کا فیصلہ آج سے 1300سال قبل میثاق مدینہ کی شکل میں ہو چکا ہے،میں کون ہوتا ہوں اس کو بدلنے والا۔
قارئین جیسے پہلے ذکر ہوا کہ اس وقت ہمارا ملک ایک بہت ہی مشکل دور سے گزر رہا ہے،ایک انتہائی خطرناک وبائی آفت کورونا وائرس کی شکل میں ہمارے دروازوں پر دستک ہی نہیں دے رہی بلکہ ہمارے گنجان آباد شہروں اور دور افتادہ علاقوں میں بھی داخل ہو چکی ہے،اس کے خلاف قومی سطح پر منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔1918کے جنوری میں سپین سے ایک بیماری فلو کی شکل میں شروع ہوئی اور جون 1918میں ہندوستان پہنچی،اور حفظان صحت کے لحاظ سے بدترین معروضی حالات کی بدولت اس وبا نے چند ماہ میں پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تقریبا 12ملین لوگ لقمہ اجل بن گئے،حالات اتنے خراب ہوئے کہ دفنانے کی جگہ تھی نہ میت جلانے کیلئے لکڑی میسر رہی۔کہا یہ جاتا ہے کہ پھر لاشیں دریائوں میں پھینکی گئیں،اللہ نہ کرے وہ وقت دوبارہ جنوبی ایشیا یا دنیا کے کسی خطے میں بھی آئے،اس لئے حکومت کو موجودہ خوفناک وبا کے مقابلے کیلئے سخت ترین اقدامات سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ایسے حالات میں علماء کے وفود کیساتھ مذاکرات اور معاہدے چہ معنی دارد،حکم ہو کہ اس مشکل گھڑی میں ہر گھر عبادت گاہ یا مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے ،سورہ یونس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی ؑکوہدایت کی تھی کہ لوگوں کو مصرلے جائو اور اپنے گھروں کو عبادتگاہیں بنا لو ،اوروہاں باقاعدگی سے عبادت کرو ہمارے نبی کریمؐ نے بھی فرمایا تمام زمین میرے لئے مسجد ہے،اس لئے میری امت کا کوئی بھی شخص جہاں موجود ہو نماز کے وقت نماز ادا کرلے۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ مساجد میں صرف صفائی اور حفاظت کیلئے تعینات چند لوگوں میں سے ہی ایک موذن اور امام بن جائے
سورۃالنساء میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اپنی جانیں مت لو اورخود اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ نہ کرو۔سمارٹ لاک ڈائون کی اصطلاح ناقابل فہم ہے،متاثرین تک رسائی کیلئے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا جائے ،اور ہر وارڈ انچارج خواہ اس کا تعلق کسی جماعت سے بھی کیوں نہ ہو وہ ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کی آنکھیں اور کان بن جائے اور فرنٹ لائن مجاہد کاکردارادا کرے۔حکومت کسی مخمصے میں پڑے بغیر واضح احکامات دے،علماء سمیت عوام اس پر من و عن عمل کریں۔ڈاکٹرز پریس کانفرنسوں کی بجائے اپنے کام پر دھیان دیں،چونکہ عوامی تعاون کے حصول کیلئے ساری ذمہ داری حکومت اورسارے سیاسی قائدین پر ہے ڈاکٹرز پر نہیں۔