ندیم بسرا
تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال پورے ہونے کو ہیں، لیکن مہنگائی ، بے روزگاری ، بروقت انصاف کی فراہمی اور امن وامان کی صورتحال جیسے عوامی مسائل جوں کے توں ہیں، مافیا اس قدر نظام پر پنجے گاڑھے بیٹھا ہے کہ حکومت مہنگائی میں عوام کو ریلیف پہنچانے کیلئے جیسے ہی مافیا کیخلاف کوئی اقدام کرتی ہے مسائل مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کی تمام ترمشکلات اور عوامی مسائل سے چھٹکارے کا حل پارٹی کو سیاسی کھینچا تانی اور گروپنگ سے پاک کرنے میں ہے،جب پارٹی متحد اور منظم ہوگی تو تمام تر مسائل خودبخود حل ہوتے چلے جائیں گے،یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ حکومت کو اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں سے کوئی خطرہ نہیں، عمران خان کی حکومت کو کمزور کرنے اور مسائل حل کرنے میں بڑی رکاوٹ وزیراعظم کے قریبی ہیں۔جیساکہ وزیراعظم اگر جہانگیرترین کو سیاسی بنیاد پر کچھ ریلیف دینا بھی چاہیں تو وزیراعظم کوپارٹی کے اندر جہانگیرترین مخالف گروپ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا، جن کی ناراضگی ہرگزمول نہیں لی جاسکتی، کیونکہ یہ حکومت اور کابینہ میں انتہائی طاقتور ہیں، شاہ محمود قریشی نے تو وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں ہی مفاہمت کی بجائے کھلم کھلا للکار دیا کہ ’’فلاں نے یہ کہہ دیاتو چارایم این ایز، چار ایم پی ایز بگڑ گئے، کوئی نہیں بگڑے گا،بلے کے نشان پرعمران خان کے بل بوتے پرجو جیت کر آیا ہے، لائن کھینچ دو، اِدھر ہوجاؤ یا اْدھرہوجاؤ،آدھاتیترآدھابٹیر نہیں چلے گا، یہ تحریک انصاف کے کارکنوں کا پیغام ہے، ڈٹ جائیں عزت اور اقتدار اللہ دیتا ہے، کسی نے اڑا کے ہْما نہیں بِٹھا دی، 22سال کی جدوجہد ہے، عمران خان کا نظریاتی کارکن ساتھ ہے، جنوبی پنجاب کا طبقہ سادہ ضرور ہے لیکن سمجھتا سب کچھ ہے‘‘اسی طرح علی امین گنڈا پور نے بھی وزیراعظم اور جہانگیرترین ملاقات کی مخالفت کی اور کہا کہ وزیراعظم احتساب کے نعرے پر اقتدار میں آئے، وزیراعظم اور جہانگیر ترین کی ملاقات سے اداروں پر دباؤ بڑھے گا، سمجھا جائے گا وزیراعظم نرم گوشہ رکھتے ہیں۔اس کے برعکس جہانگیرترین کے پاس کابینہ میں توکوئی حصہ نہیں لیکن حکومت کو ہلانے ،گرانے کی نمبرگیم، پنجاب اور وفاق میں فاروڈبلاک بنانے کیلئے بڑا حصہ موجود ہے، ایم این اے راجا ریاض کی قیادت میں جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے وزیراعظم کو ملاقات میں پیش کردہ چارج شیٹ میں الزام عائد کیا کہ شہزاد اکبرایف آئی اے کو جہانگیرترین کیخلاف استعمال کر رہا ہے، خسرو بختیار، ہارون اختر، اومنی اور شریف خاندان گروپ کی تمام ملوں کو تحقیقات کا حصہ نہیں بنایا گیا،شہزاد اکبر کومعاملے سے الگ کرکے جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کروائیں، تاہم وزیراعظم نے جوڈیشل کمیشن کی استدعا سے اتفاق نہیں کیا اور واضح کہا کہ چینی کی قیمت میں اچانک اتنا اضافہ ہوا تو کیا ہم کسی سے پوچھیں بھی نہیں؟ جہانگیرترین پارٹی کے رہنماء اور دوست ہیں، شہزاد اکبر کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، وہ یقینی بنائیں گے ایف آئی اے کسی سے زیادتی نہ کرے، جہانگیر ترین سمیت سب مل مالکان اپنے کیسز کی پیروی کریں، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی،پی ٹی آئی کی اندرونی سیاسی صورتحال سے لگتا یہی ہے کہ جہانگیرترین کا معاملہ طے نہیں پائے گا، انصاف اور احتساب بس برائے نام ہی رہیں گے۔
اس کے ساتھ وزیراعظم کو جہاں پارٹی اور عوامی مسائل کا سامنا ہے، وہاں کورونا وباء کی تیسری لہر نے حکومتی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے ،وباء اس قدر شدید ہے کہ گزشتہ روز5 ہزار 292 نئے کیسز اور 201اموات رپورٹ ہوئیں،مجموعی کیسز کی تعداد8 لاکھ 10 ہزار 231 ہو گئی ہے،51 شہروں میں مثبت کیسزکی شرح 5 فیصد سے زیادہ ہے، زیادہ شرح والے16 شہروں میں فوج تعینات کردی گئی ہے، ایس اوپیز پر عملدرآمد کیلئے فوج سول اداروں کی معاونت کرے گی،اسی طرح ابھی تک 20 لاکھ سے زائد افراد کو کورونا ویکسین لگائی جاچکی ہے، حکومت کا پہلے مرحلے میں 2 کروڑ 60 لاکھ اور دوسرے مرحلے میں 10 کروڑ پاکستانیوں کو ویکسین لگانے کا ہدف ہے،اسد عمر کا کہنا ہے کہ کورونا کیسز بڑھنے کے پیش نظرمزید 6 ہزار901 بستروں کا بندوبست کرلیا ہے،ہسپتالوں کو 2 ہزار 811 آکسیجن بیڈز، 431 وینٹی لیٹرز اور ایک ہزار 196 آکسیجن سلنڈر بھی فراہم کردیے ہیں، اب بھی 80 میٹرک ٹن آکسیجن ریزرو میں ہے،سلنڈرز والی آکسیجن گھروں میں موجود مریض استعمال کرتے ہیں،معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے عید الفطر سے قبل لاک ڈاؤن کا عندیہ دیا ہے، تعلیمی ادارے غیرمعینہ مدت کیلئے بند اور امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کیا چیز بند ہوگی اور کیا کھلی رہے گی، اس کا خاکہ تیارہوچکا ہے، لاک ڈاوَن کا دورانیہ کم سے کم 10 دن اور زیادہ سے زیادہ 2 ہفتے ہوسکتا ہے۔دوسری جانب صدرمسلم لیگ ن، قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی سے سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوگیا ہے، ان کی رہائی سے پارٹی ڈھانچے کو تقویت ملے گی اور کارکنان بھی مزیدمتحرک ہوجائیں گے، اگر چہ مریم نواز نے ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کو منظم اور متحرک کیے رکھا، لیکن شہبازشریف کو عوامی فلاحی منصوبوں کی وجہ سے عوام میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے، ان کی سیاسی انتظامی امور پر گرفت اور مفاہمتی پالیسی سے حکومت مزید مسائل سے دوچار ہوسکتی ہے، شہبازشریف چونکہ پارٹی صدر ہیں، اس لیے مریم نواز ان کے ماتحت کام کریں گی، مریم نوازیہ واضح کہہ چکی ہیں کہ پی ڈی ایم میں بھی اب شہبازشریف پارٹی کی قیادت کریں گے، ہم ان کے ساتھ ہوں گے، اسی طرح پی ڈی ایم اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عید کے بعد سربراہی اجلاس بلایا جائے گااورپوری قوت کے ساتھ بھرپور عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی، پی ڈی ایم اتحاد سے علیحدہ ہونے والی جماعتوں پیپلزپارٹی اور اے این پی پیپلز پارٹی کو کہا گیا کہ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اتحاد میں واپس آ سکتی ہے۔پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن نے سیاسی محاذ آرائیوں کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر الیکشن کیلئے بھی صف بندی شروع کردی ہے، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان مقابلہ ہوگا، عام طور پر دیکھا جائے توآزادکشمیر الیکشن میں وہی جماعت کامیاب ہوتی رہی ہے جو پاکستان میں حکومت میں ہوتی ہے، لیکن تحریک انصاف چونکہ پہلی باروفاقی حکومت میں آئی ہے اس لیے کشمیری عوام کااعتماد حاصل کرنابڑا معرکہ سر کرنے کے مترادف ہوگا، جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پرانی جماعتیں ہیں اور اپوزیشن میں بھی ہیں،اس لیے کامیابی کیلئے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حکومتی کمزوریوں کو اجاگرکریں گی۔
’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘نہیں چلے گا، کارکنوں کا ڈٹ جانے کا پیغام
Apr 29, 2021