انتخابی عمل ، جیت اور ہار

’’ضمنی الیکشن اس کا ، جس کی حکومت‘‘ جیسے سیاسی و انتخابی خیالات قصہ پارینہ بن چکے ہیں ، حالانکہ ماضی میں جب کبھی اور جہاں کبھی بھی ضمنی الیکشن ہوتے تھے ، حلقے میں خوب گہماگہمی ہوتی تھی ، رونقیں لگتی تھیں ، وزیروں ، مشیروں اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی ضمنی انتخاب والے حلقے میں صبح و شام آمد ہوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ وفاق میں پی پی ہے تو پنجاب میں مسلم لیگ ہے ، جس سے ضمنی الیکشن میں گھمسان کارن پڑتاتھا ، (وفاقی اور صوبائی حکومتوں) دونوں کو حلقے میں برسوں پرانے ترقیاتی منصوبے یاد آ جاتے ، جس خاندان یا برادری کے زیادہ ووٹ ہوتے ان کو اسی تناسب سے پذیرائی ملتی ، نوکریاں بھی دے دی جاتیں ، ایسے الیکشن میں کئی آزاد امیدواروں کی بھی چاندی ہو جاتی ، بعض کو دستبردار کرانے اور بعض کو کھڑا رکھنے کے لیے اچھا خاصا معاوضہ دیا جاتا تھا، ترقیاتی پیکج کا صرف اعلان ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ عملدرآمد بھی ہو جاتا تھا اور ضمنی انتخابی مہم کے مختصر ترین دورانیہ میں سڑکوں کا جال بچھ جاتا ، سولنگ نالیوں کی تعمیر و مرمت ہو جاتی ، کئی تعلیمی ادارے اپ گریڈ ہو جاتے ، گویا ’’بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے جاتے‘‘ لیکن این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی الیکشن (19 فروری اور -10 اپریل کو) دونوں بار ہی ’’بے رنگ، بے ذائقہ اور بے بو‘‘ رہا۔ 19 فروری کا انتخابی عمل اور تمام نتائج کالعدم قرار دئیے جانے کے بعد کئی دنوں تک دونوں پارٹیاں (تحریک انصاف اور ن لیگ) اپنی اپنی کامیابی کے دعوئوں کی گردان کرتی رہیں، انتخابی عمل اور نتائج کو کالعدم قرار دئیے جانے کے فیصلے کو کوستی رہیں ، اور اپنی اپنی جیت کا شور مچاتی رہیں ، پھر جب دوبارہ الیکشن کا فیصلہ ہوا ، شیڈول آیا تو پہلی مرتبہ ہوا کہ الیکشن کمشن کو اپوزیشن کی بجائے حکومت کی طرف سے سخت تنقیداور طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑا ، وزیروں ، مشیروں اور حکمران پارٹی کے رہنمائوں اور عہدیداروں نے ملکی اداروں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ، خیر! دوبارہ الیکشن کے فیصلے کا (ن) لیگ نے خیرمقدم کیا جبکہ حکمران جماعت آخری وقت الیکشن کے التواء کے لیے ہاتھوں پائوں مارتی رہی۔ لیکن بالآخر سپریم کورٹ کے احکامات اور الیکشن کمشن کے شیڈول کے مطابق -10 اپریل (ہفتہ) کو انتخابی معرکہ شروع ہوا ، انتخابی عمل کو پرامن اور شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمشن کی درخواست پر رینجرز اور فوج تعینات کی گئی۔ دونوں پارٹیوں کے عہدیداروں نے ’’بیان بازیوں‘‘ کے ذریعے فتح و نصرت کے لیے خوب رنگ جمایا، میدان سجا ، کارکنوں نے بھی خوب ’’ہلّہ گلّا ‘‘ کیا مگر حالات قدرے پُرامن ہی رہے، ’’ترجمانوں‘‘ نے بھی اپنی اپنی پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کی راہیں ہموار کرنے کی پوری کوشش کی ، ساتھ ہی ساتھ انتخابی عمل کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے کی امید باندھتے ہوئے نتائج کو من و عن تسلیم کرنے کاعندیہ بھی دیتے رہے لیکن بالآخر وہی ہوا جس کاخدشہ اور یقین تھا، (ن) لیگ کی نوشین افتخار نے ایک لاکھ ، 10 ہزار75 ووٹ لے کر معرکہ سر کر لیا جبکہ تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی نے 93434 ووٹ لیے، پھر کیا ہوا ، وہی جو ہوتاچلا آیا ہے کہ جیتنے والوںنے کہاکہ ’’اس سے زیادہ شفاف ، منصفانہ ، غیر جانبدار اور آزادانہ انتخاب پاکستان کی تاریخ میں آج تک نہیں ہوا‘‘ ہارنے والوں کا ردّعمل بھی روایتی ہی تھا کسی نے کہا کہ ’’جیت الیکشن کمشن کو مبارک ہو‘‘ کسی نے تسلی دل کے لیے کہا کہ ’’ہم ہار کر بھی جیت گئے ‘‘ بھلا ’’اخلاقی فتح‘‘ کا یہ کون سا زمانہ ہے اور پھر ’’ہار کر جیتنے والے‘‘ فلسفے کی حکومت و سیاست میںکتنی اہمیت ہے ، ہاںیہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہارنے والے امیدوار کو اس کی حکمران پارٹی مشیر بنا کروزیر کے برابر مراعات دے تو پھر وہ کہہ سکتا ہے کہ ’’ہم ہار کر بھی جیت گئے‘‘ ورنہ سچ تو یہی ہے کہ نتائج تسلیم کر لیے جائیں ، حقائق سے نظریںنہ چرائی جائیں تاہم کچھ لوگ تسلی بخش اور حوصلہ افزا باتیں بھی کر جاتے ہیں کہ ’’دو شخص مقابلے میں ہوں تو ایک نے ہی جیتنا ہے‘‘۔ لیکن کیا ، کیا جائے صورتحال ایسی ہی ہے کہ …؎
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل 
وہی الجھن گھڑی گھڑی ، پل پل 
میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی 
ان کے مرنے کا نام تاج محل 
یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل 
یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مل 
سیاست کے کھیل میںہار، جیت ہوتی رہتی ہے اس لیے جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں کو تحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ 
ابھی نئی بازی ہو گی ، پھر سے پتّا ڈالیںگے 
کوئی بات نہیںجو ہار گئے ہیںپہلا دائوں 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن