2023ء میں عام انتخابات سے پہلے عمران حکومت نے تین وفاقی بجٹ پیش کرنے میں چند ہفتوں بعد پیش کیا جانیوالا بجٹ شوکت ترین کی مہارت سامنے لے آئیگا۔ بجٹ کے معماروں میں ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر رضا باقر نمایاں ہیں۔ بجٹ میں پہلے نمبر پر آئی ایم ایف‘ دوسرے نمبر پر ورلڈ بنک‘ تیسرے نمبر پر حکومت پاکستان اور چوتھے نمبر پر 22 کروڑ عوام کو راضی رکھنا ہے۔ عمران خان نے بجٹ کے معماروں سے کہا ہے مہنگائی چیلنج ہے‘ مزید ٹیکس نہ لگائیں‘ معاشی حالات مشکل ہیں‘ مسائل کا آئوٹ آف بکس حل نکال کر عوام کو ریلیف دیا جائے۔ وزیراعظم تسلیم کرتے ہیں‘ بجلی کی قیمتوں میں فوری اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ آٹے کی قیمتوں میں استحکام اور بلاتعطل فراہمی ترجیح ہے۔ ادھر کرونا ہی بے قابو نہیں ہر چیزبے قابو ہے۔ سب سے بڑھ کر مہنگائی‘ دوسرے نمبر پر دہشت گردی بے قابو ہے۔ چھوٹے سے بڑا ہر کوئی من مانی کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کرونا کے ہاتھوں طالب علموں اور تعلیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ لوگ کہتے ہیں سب کچھ معمول کیمطابق چل رہا ہے‘ صرف تعلیمی ادارے کیوں بند ہیں۔ بچے دن کو ہی نہیں‘ آدھی رات کے بعد بھی گلیوں میں جمع رہتے ہیں اور کھیل کود سے لوگوں اور بیماروں کی نیند میں خلل ڈالے رکھتے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے رونما ہوئے۔ مچھ کا سانحہ ہزارہ برادری کے کان کنوں کا قتل‘ ہرنائی چیک پوسٹ پر حملہ وغیرہ انتہائی باعث تشویش ہیں۔ دشمن ہماری سرزمین میں چھپا بیٹھا ہے۔
32 ماہ میں پی ٹی آئی حکومت نے اپنی آمدن سے 10 کھرب روپے زیادہ خرچ کئے ہیں۔ یہی بجٹ کا خسارہ ہے۔ بجٹ خسارہ مہنگے قرضوں سے پورا کیا گیا ہے۔ یہی ڈیٹ ٹریپ کہلاتا ہے۔ اس عرصے میں بجلی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ ایک کھرب دس ارب روپے سے بڑھ کر 2.5 کھرب ہوا ہے۔ 1.4 کھرب روپے کا نقصان بھی ہائی کاسٹ قرضوں سے پورا کیا ہے۔ سرکاری شعبے کے ادروں نے 2000 ارب روپے قرضے لئے ہیں۔ گیس کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ 350 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ ایف بی آر کے پاس ٹیکس ری فنڈز کی شکل میں 710 ارب روپے مالیت کا سرکلر ڈیٹ جمع ہوا ہے۔ 220 ملین آبادی والے پاکستان نے جولائی سے فروری تک 1.3 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری وصول کی ہے۔ پچھلے سال کے اسی عرصے سے 30 فیصد کم ہے جبکہ بھارت سے اپریل تا جنوری کے عرصے میں 72 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ریکارڈ قائم کیا ہے جو پچھلے سال سے پندرہ فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان کی بیرونی ادائیگیاں تیس ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے مانیٹری پالیسی کے تحت ٹیکس بڑھاتے جائو۔ عوام کی چیخوں کی پرواہ نہ کرو۔ ڈیٹ ٹریپ سے اسدعمر حفیظ شیخ‘ حماداظہر یا شوکت ترین نہیں نکال سکتے۔ انکے پاس بھی قرضوں کے سوا کوئی اور نسخہ نہیں۔ وہ سرکاری ملازمین سے انکے گھر گاڑیاں اور دیگر آسائشیں تو چھین نہیں سکتے‘ بریڈ انڈوں کی جگہ چائے اس کا ناشتہ کسی کے حلق سے نہیں اترے گا۔ سود خوروں کو گاہکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سود خور کا کلینک 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ وہ خود چل کر آئے تو اسکے قیام طعام کا خرچ بھی مقروض کے ذمہ ہوتا ہے۔ معاشی ٹیم کے بس میں کچھ نہیں۔ بیوروکریسی انکی گفتن نشستن پر پانی پھیرنے کیلئے تیار ہوتی ہے۔ معاشی ٹیم کے اجلاسوں اور قیام و طعام کا خرچہ بھی کم نہیں ہوتا۔ غالب نے قرض کی ساری زندگی مہ پی اور پھر فقر کی مستی نے ایک دن آلیا۔ دن میں دس دس اجلاس کرلیں‘ اجلاسوں کا خرچہ بھی قرض سے ادا ہوتا ہے۔ قرض کی آفتیں کوئی جادوئی معاشی ٹیم ہی ٹال سکتی ہے۔ عمران خان کے مطابق قرضے چڑھ چکے‘ عوام کیلئے پیسے کم بچتے ہیں۔ حالات مشکل ہیں‘ کوئی بھوکا نہ سوئے‘ پورے ملک میں پھیلائیں گے۔ مستحق افراد کو دہلیزپر کھانا پہنچایا جائیگا‘ ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان بھی چند سالوں میں دنیا کے نقشے پر ہوگا۔ طاقتور و کمزور کیلئے یکساں قانون ہی نظام میں بہتری لا سکتا ہے۔ مستحقین کو کھانا کھلانے کا کام پہلے ہی غیرسرکاری سطح پر چل رہا ہے۔ حکومت کی مداخلت سے اس میں بہتری آسکتی ہے۔ حکومت ہزاروں کم پڑھے لکھے اور بیروزگاری کے ہاتھوں مجبور افراد کو دو وقت کا کھانا مہیا کرنے کے ساتھ فیکٹریوں میں ہنر سکھا سکتی ہے۔چینی کا لامتناہی بحران ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی جیبیں بھر رہی ہیں‘ نہ جی بھر رہا ہے‘ مقدمات اور جرمانوں کے ڈر سے منافع خوروں نے مارکیٹ سے چینی اٹھالی۔ چینی 110 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ تین سے چار سال قبل مقابلہ و مسابقت کی فضا میں مارکیٹ میں چینی 36 سے 40 روپے فی کلو فروخت ہورہی تھی۔ بہت سے سرکاری اہل کار خود چینی کی سمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں جو منافع خوروں کو نئی راہیں دکھاتے ہیں۔ یہ منظم مافیا ملک بھر میں سرگرم ہے۔ (جاری)