INDIA VARIENT کی بے قابو صورتحال 

برطانیہ نے Covid-19 کی تیسری خطرناک لہر میں شدت سے بڑھتی اموات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے بھارت کو بالآخر ریڈلسٹ ممالک کی فہرست میں شامل کرہی لیا۔ لفظ ’’کرہی لیا‘‘ پر زور میں نے اس لئے دیا ہے کہ چند ہفتے قبل پاکستان کو ’’فٹافٹ‘‘ جب ریڈلسٹ ممالک میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس سلسلہ میں یہاں متعدد سوالات اٹھائے گئے تھے۔ سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں کرونا سے ہونیوالی روانہ کی بنیاد پر اموات کی شرح کہیں زیادہ ہے جبکہ وزیراعظم بورس جانسن بھی آئندہ چند روز میں بھارت کے سرکاری دورے پر روانہ ہونیوالے ہیں۔ چنانچہ ان حالات کے باوجود بھارت کو ریڈلسٹ میں شامل نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ برطانیہ بھارت سے اپنے دوطرفہ دوستانہ تعلقات کو اس موذی وائرس کے باوجود پاکستان سے زیادہ اہم تصور کرنے پر مجبور ہے۔ اس سلسلہ میں برطانوی شہریوں نے بھرپور احتجاج بھی کیا مگر بھارت کو ریڈلسٹ میں شامل نہ کیا گیا۔ اب جبکہ کووڈ کی تیسری لہر کے مزید جان لیوا اثرات سامنے آنا شروع ہوئے اور بھارت میں پھیلی اس وائرس کے بے قابو ہونے کے ثبوت اموات کی صورت میں نظر آئے ہیں تو برطانوی حکومت نے بھارت کو فی الفور ریڈلسٹ ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ 
نیشنل ہیلتھ ذرائع کے مطابق بھارت سے کرونا کی دوسری جان لیوا وائرس کے پازیٹو 73 کے قریب برطانوی بھارتی افراد کے برطانیہ داخل ہونے اور 103 افراد کے پازیٹو چیک کے بعد برطانیہ کو بھارت کیخلاف یہ اقدام اٹھانا پڑا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں روزانہ تین لاکھ 15 ہزار پازیٹو کیسز کا انکشاف ہوا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ دہلی کے ہسپتالوں میں بیڈز اور آکسیجن کی سخت کمی واقع ہو چکی ہے۔ مریض ہسپتالوں کے باہر اور سڑکوں پر بیڈز اور ادویات نہ ہونے کی بناء پر جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ بھارت میں پھیلنے والی اس ہولناک وائرس کے بارے میں امپریل کالج لندن کے Immunology کے پروفیسر ڈینی آلسٹمین تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ بھارت میں بے قابو ہونیوالی اس تیسری لہر کے بارے میں اگلے روز دوران تحقیقی عمل جب انہیں یہ پتہ چلا کہ بھارت میں انتہائی شدت سے پھیلنے والی Varient کو فوری روکنا ممکن نہیں رہا تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کو اسی وقت متاثرہ ممالک کی ریڈلسٹ میں شامل کیوں نہ کیا؟ ڈائریکٹر آف کرونا 19 کا یہ کہنا ہے کہ بھارت میں پھیلی جان لیوا اس وبا میں پائی جانیولای شدت کو Varient  of  concern سے دیکھا جانا اب ناگزیر ہے کہ اس نئی مگر جان لیوا وبا کا آغاز چونکہ بھارت سے ہی ہوا ہے اس لئے اضافی احتیاط کرنا لازم ہوگا۔
بھارت سے برطانیہ آنیوالے ان شہریوں کیلئے جنہیں شہری کے حقوق حاصل ہیں‘ یہاں پہنچنے پر حکومت کے Improved ہوٹلوں میں 10 روز قرنطینہ کے مراحل سے گزرنا ہوگا۔ وزیراعظم بورس جانسن واضح کر چکے ہیں کہ بھارت میں پائی جانیوالی یہ نئی مگر خوفناک لہر جنوبی افریقہ اور برازیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہے جس سے برطانیہ میں مزید کیسز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات تو اب طے ہے کہ اس موذی وباء کے ساتھ ہی زندہ رہنے کے ہمیں نئے طریقے سیکھنا ہونگے۔ 
India  Varient سے زیادہ اموات بھارتی ریاست اترپردیش میں ہورہی ہیں۔ اترپردیش بھارت کی 24 کروڑ آبادی کی وہ سب سے بڑی ریاست ہے جہاں سے 80 ارکان پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ وہی ریاست ہے جہاں بین المذاہب شادیوں پر مودی سرکار مزید پابندیاں عائد کررہی  ہے۔ یہاں کے شمشان گھاٹوں میں نعشیں جلانے اور قبرستانوں میں میتیں دفن کرنے کی جگہ باقی نہیں رہی۔ شمشان گھاٹوں کے بجائے مردوں کو اب کھیتوں میں جلایا جارہا ہے۔ ہسپتالوں کے آئی سی یو وارڈز تک میں آکسیجن اب دستیاب نہیں ہورہی۔ جان لیوا B.I.617 بھارتی لہر سے آنیوالے دنوں میں مزید اور کتنی اموات ہو سکتی ہیں‘ کچھ کہنا قبل ازوقت ہے تاہم اس حقیقت سے کہ مودی سرکار نے اس لہر کو روکنے کیلئے بروقت اقدامات نہ کرتے ہوئے بے گناہ انسانوں کو موت کے منہ میں جھونک دیا‘ انکار ممکن نہیں۔ مودی سرکار پر مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم کا داغ پہلے ہی نہیں دھل رہا تھا کہ کرونا کی اس جان لیوا خطرناک لہر نے لاکھوں افراد کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔ 
مہاراشٹر جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر پردیپ سہنا نے اپنے ایک Courtesy پیغام میں اس خطرناک وائرس کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے بغیر لگی لپٹی واضح کیا ہے کہ India Varient نے تمام تر حدود پار کردی ہیں‘ یہ وائرس براہ راست پھیپھڑوں پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ ابتدائی علامات میں کھانسی‘ بخار‘ باڈی پر کجھلی اور کمزوری کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور یوں نظام تنفس متاثر ہونے کے بعد آٹھ سے 10 گھنٹوں میں موت واقع ہوجاتی ہے۔ آکسیجن کا فوری ڈراپ ہونا بھی موت کا سبب بن رہا ہے۔ ڈاکٹر پردیپ کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے اثرات بنگلہ دیش‘ افغانستان اور پاکستان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے شمال مشرقی بھارتی علاقوں میں کرونا مریضوں کیلئے خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹروں کے اثرا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ڈاکٹروں کے مطابق اس نئی کرونا وائرس پر قابو پانے کی وہاں جنگ ہار چکے ہیں۔ بعض مریض تندرست نظر آتے ہیں مگر دیکھتے ہی دیکھتے انکی آکسیجن کا لیول ڈراپ ہوتا ہے اور یوں چند ہی گھنٹوں میں انکی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ حالات دیکھنے کے بعد پاکستان میں بڑھتے کیسز کے بارے میں مجھے بھی اب تشویش لاحق ہونے لگی ہے کہ کرفیو اور پاک فوج کے جوانوں کی گشت اس بات کا ثبوت ہے کہ کرونا یہاں بھی بے قابو ہوچکا ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن