ماموں نور دین نمبر دار اور انکے بیٹے اقبال کے سانحے 

67/66ء کی بات ہے یہی گرمیوں کے دن تھے،یہی چاندنی راتیں۔بچپن کے ہم تین ہمجولی سجن بیلی گائوں سے ملحقہ کنویں کی گادھی پر بیٹھے گھنٹوں تک چاند اور ستاروں سے باتیں کرتے رہتے۔میں تھا ‘اقبال تھا اور حنیفی گٹھی ۔ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ پھر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے گادھی سے اترے ۔راستے میں بابا خیر دین کی ایک کھلی حویلی آئی جہاں دو بچے عمر دین اور حاکم علی ایک چارپائی پر گہری نیند کے خراٹے لے رہے تھے۔ حویلی میں جگہ جگہ مویشی بندھے تھے اور درمیان میں لکڑی کی ایک کھرلی پڑی تھی۔ ہمیں نہ جانے کیا شرارت سوجھی کہ ہم نے چارپائی کو اٹھا کرکھرلی میں رکھ دیا۔ یہاں سے حنیفی گٹھی کا گھر قریب تھا اس نے دورڑلگا دی۔
میں اور اقبال گائوں کے پہلے مکان کے پچھواڑے پہنچے تو سامنے سے اقبال کا باپ نمبر دار نور دین آرہا تھا۔خوب صورت، وجیہہ سرخ وسفید چہرہ جو دیہات میں کم کم دکھائی دیتاہے۔ لمبا قد‘ سفید کرتا‘ سفید تہمد اور سر پر سفید صافہ۔انہوں نے ہمیں ڈانٹ کر پوچھا کہ اتنی رات گئے کیوں یہاں پھر رہے ہو‘چلو گھر پہنچو۔ 
ہم دونوں نے حد ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ نہیں پوچھا کہ ہم تو گھر ہی جارہے ہیں لیکن آپ گھر سے نکل کر اتنی دور کیوں آ گئے ہیں؟ راستے میں مسجد آئی‘ میں مسجد میں گھسا اور کھڑکی کھول کر اپنے گھر کے کمرے میں گھس گیا۔
صبح پہلی بس پکڑی اور گورنمنٹ کالج کے لیے روانہ ہو گیا۔اسی روز یا شاید چند دن بعد یہ تشویش ناک خبر سنی کہ نمبر دار نور دین غائب ہے ۔شبہ یہ تھا کہ اسے کسی نے قتل کر دیا ہے مگر قتل کس نے کیا اور لاش کہاں گئی؟ یہ سب ایک معمہ تھا۔
 گنڈا سنگھ والا تھانہ کی پولیس نے تفتیش کا روایتی حربہ اپنایا اور سارے گائوں کے مردوں کو ہماری آبائی حویلی میں اکٹھا کر لیا جہاں کوئی کمرہ تو نہیں بنا ہواتھا مگر ایک جھونپڑی میں میرے بڑے بھائی ماسٹرعمر فاروق زندگی کے دن گزار رہے تھے۔ ایک بڑے باپ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے ان کا تھانے میں بڑا اثر و رسوخ تھا۔بہر حال ایک ایک آدمی کو جھونپڑی کے اندر لے جایا جاتا اس کی چھترول کی جاتی چیخیں بلند ہوتیں اور جن لوگوں کی ابھی باری آنے والی تھی ان کے دل میں ہول اٹھتا۔ 
یہ تماشہ کئی روز تک جاری رہا۔ آخر تین آدمیوں جن میں ایک لوہار۔ایک کمہار اور ایک تیلی تھا‘نے اعتراف جرم کرلیا اور بتا یاکہ انہوں نے نور دین نمبر دار کو جھانسے سے ایک گھر میں بلایا اور جیسے ہی وہ وہاں پہنچے ان کے گلے میں انہی کا صافہ ڈال کر اسے زور سے کھینچتے رہے یہاں تک کہ وہ دم توڑ گئے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ آخر انہوںنے یہ قتل کس کے ایما پر کیا؟
 مزید مار کھانے کے بعد انہوں نے ایک نام اُگلا۔اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ اس نام کے دو آدمی گائوں میں رہتے تھے اور دونوں کے باپ کا نام بھی ایک جیسا تھا۔ان میں سے ایک شخص نے اپنی جان چھڑانے کے لیے پولیس کو بھاری رشوت دی اور دوسرے کو پھنسا دیا جو بے گناہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لاش کو ایک بوری میں بند کرکے گدھے پر لاد کر گائوں سے کچھ دور نہر کے ایک سائفن کے اندر ٹھونس آئے ہیں۔ قاتلوں نے یہ بھی بتایا کہ جب ان کا شکار بالکل ان کے قریب پہنچنے والا تھا تو تین لڑکوں نے اس مکان کے سامنے حویلی میں اٹکھیلیاں شروع کردیں۔ ان میں نمبر دار نور دین کا بیٹا اقبال، میں اور حنیفی گٹھی شامل تھے۔ 
قاتلوں نے بتایا کہ اگر یہ لڑکے وہاں ایک دو منٹ مزید ٹکے رہتے تو ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم پہلے ان تینوں کا گلا گھونٹ دیں گے مگر یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ جلدیہاں سے نکل گئے۔ مجھے لاہور میں جب یہ خبریں ملیں تو مجھے پتا چلا کہ موت میرے کتنے قریب آگئی تھی۔
اس قتل کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا اس لیے اس دور کے قانون کے مطابق یہ مقدمہ ایک سول جرگہ کے سپرد کردیا جس نے چاروں قاتلوں کو عمر قید کی سزا دی ۔ابھی کوئی دس روز قبل اسی نمبر دار نور دین کا بیٹا اقبال نمبر دار موٹر سائیکل پر گائوں فتوحی والہ سے قصور آرہا تھا ۔ ایک تیز رفتار ٹرالے کی زد میں آ کر کچلا گیا ۔وہ روزے کی حالت میں تھا اور افطاری میں چند منٹ ہی باقی تھے۔ اس کے جسم سے بری طرح خون بہہ رہا تھا۔اسے قریبی قصور کے ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جایا گیا جہاں پولیس بھی اس کا بیان لینے کے لیے ٹرالے کے ڈرائیور کے ساتھ آگئی۔
اقبال نمبردار نے پولیس کو کہا اس ڈرائیور کو کیوں ناحق پکڑ رکھا ہے۔ مجھے تو ایک موٹر سائیکل والے نے پیچھے سے ٹکر مار کر اس کے سامنے پھینک دیا تھا اس لیے اس کا اس حادثے میں کوئی قصور نہیں اسے چھوڑ دیں۔ افطاری کے لیے اذانیں شروع ہوئیں۔اقبال نمبر دار نے روزہ افطار کیے بغیر آخری ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ 
اس حادثے کی خبر علاقے بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ باپ کے بعد بیٹا بھی ایک المناک حادثے کا شکار ہوگیا ۔مجھے چاروں طرف سے فون آنے لگے۔ بڑے بھائی میاں محمدنے سب سے پہلے یہ المناک خبر سنائی۔پھر ماموں زاد اسلم نے حادثے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ 
میرے بھتیجے عبدالرحمن انجم نے بتایا کہ ایک جنازہ نماز فجرکے بعد قصور شہر میں ہوگا اور دوسرا جنازہ گائوں فتو حی والا میں صبح آٹھ بجے ہوگا۔
پچھلے ستر سال کے واقعات ایک فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے تھے ۔ میں اور اقبال ایک دوسرے کے دکھ سکھ‘ بھوک فاقے اور بیماری کے ساتھی تھے ۔
بچپن میں وہ روزانہ ہمارے گھر آتا ہم دو چار دن کی باسی روٹی تلاش کرتے اسے پانی میں بھگو کر نرم کرتے اور گاڑھی لسی میں نمک مرچ ملا کر اسے پلائو کی شکل میںبنا دیتے ۔ہم اپنے دکھوں پر خوب قہقہے لگاتے ۔کبھی حنیفی گٹھی کو ساتھ لے کر ماڈھلاں والے قطعے کی طرف روانہ ہو جاتے جہاں جنگل تھا‘جھیلیںتھیں ۔ہم مچھلیوں کے شکار سے دل بہلاتے اور کانٹے دار گھاس پر لیٹ کر وقت گزارتے ۔
اقبال کی موت سے ایک روز پہلے میں نے اس سے فون پر کہا تھا کہ اپنی زمین بیچ دو۔ اب یہ بکھیڑا تمہارے بس کی بات نہیں۔سب بچوں اور بچیوں کی شادی کر چکے ہو اور وہ اپنے گھر والے ہیں۔ اس نے کہا کہ زمین بیچ دوں گا تو دن کیسے گزریں گے؟ 
میں نے کہا کہ ڈھیر سارے پیسے لے کر میرے پاس آجانا ۔ہم اپنی غربت کے دنوں کی یادیں بھلانے کے لیے لاہور کے ہوٹلوں میں مزے سے کھانے کھایا کریں گے۔ کورونا کی وبا ٹل جائے تو ہم عمرہ کریں گے اور حج پر جائیںگے۔ یہ نیک ارادے پورے کیے بغیر اقبال اس دنیا سے چلا گیا ۔اب میں ہوں اور میری تنہائی۔۔۔گائوں میں حنیفی گٹھی تو ہے ۔بچپن کا ایک اور دوست نصراللہ نصری اور بیرو بہادری بھی ہیں مگر ہم سب بڑھاپے کے مرحلے میںہیں اور ایک دوسرے سے دور، بہت دور۔۔۔
٭…٭…٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن