انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ نسلی امتیاز برتنے پر بین الاقوامی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔ 213 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اور اس حوالے سے اپنائی گئی پالیسیاں بین الاقوامی قوانین کے تحت کس حد تک اپارتھائیڈ یا نسلی امتیاز میں شمار ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر لگائی جانے والی پابندیاں اور یہودیوں کی آباد کاری کے لیے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ ایسے جرائم ہیں جو نسلی امتیاز اور ظلم و ستم پر مبنی ہیں۔ رپورٹ میں حقائق کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی حکومتیں، تنظیمیں اور کمپنیاں فلسطین میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ نہیں بن رہی ہیں۔ دوسری جانب، اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ چند ہفتے پہلے بین الاقوامی عدالت جرائم (آئی سی سی) نے بھی کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کی تحقیق کرے گی۔ ہیومن رائٹس واچ اور آئی سی سی کا اسرائیل کے مجرمانہ کردار کو سامنے لاتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں بات کرنا ایک اچھی پیش رفت ہے۔ بالعموم تمام عالمی برادری اور بالخصوص مسلم ممالک کو تمام اہم بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اس رپورٹ کے ذریعے اسرائیل کے جرائم اور مظالم پر بات کرنی چاہیے تاکہ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے ختم ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے اور فلسطینی مسلمان اپنے علاقوں میں بلا خوف و خطر زندگی گزار سکیں۔