سردار ملائکہ جبرائیل امین علیہ السلام کی قیادت میں اس بار بھی فرشتوں کا نزول اس بابرکت افضل ترین رات میں ہو رہا ہے جس کے بارے خود اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے کہ صرف ایک رات کے عوض ایک ہزار مہینوں سے بھی زیادہ کا اجر ملتا ہے۔ اس فیوض بھری رات کے سفر میں بڑی برکت اور فضیلت رکھی گئی ہے۔ اس رات کی برکتوں اور جلوتوں کا کیا شمار، پُرسکون سی کیفیت میں سوز و سکوں کے متلاشیوں کو طمانت بھری کامیابی کی نوید دیتی ہے۔ اس کے اثرات اتنے دل پذیری رکھتے ہیں کہ اس رات کا طلوع ہونے والا سورج بھی چودھویں کے چاند کی صورت فرحت بخش ٹھنڈک کی طرح ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس رات کی برکتوں کا احاطہ کرنا کسی بھی قلم کی استطاعت سے ماورا ہے۔‘‘ ’’قرآن پاک‘‘ اللہ کی آخری کتاب جو پہلی تمام کتابوں پر مہر ثبت کرتی ہے۔ اس کا سفر نزول بھی اسی بابرکت لمحات میں ہوا اور اللہ جل جلالہ کی عنایت تو دیکھیں! اہل مسلم کو زندگی بھر کیلئے ہر سال اس رات کا تحفہ عنایت کر دیا۔
کون ہے جو اس بابرکت رات کو تلاش کرے اور فیوض کی برکات سے آشنا ہو۔ یہ وہی رات ہے جس میں رب جلیل نے دنیا کے مسلمانوں کو وہ خطہ ارض ’’پاکستان‘‘ تحفہ میں دیا جس نے اہل اسلام کیلئے ایک قلعہ بننا تھا اور یہ وہی رات ہے جس میں ملائکہ کی سواریاں نزول کر رہی تھیں اور آبروئے صحافت ’’مجید نظامی‘‘ زندگی کا سفر پورا کرتے ہوئے رب جلیل سے ملاقات کیلئے جہان فانی سے رخصت ہو رہے تھے۔
جناب مجید نظامی کی زندگی کا ہر لمحہ پاکستان اور عالم اسلام کی سربلندی و ترقی کا امین تھا۔ دنیا کی جبروتی طاقتوں نے بڑے بڑے ناموروں کو اپنے سامنے سرنگوں کیا مگر آپ کے پایہ استقلال میں کوئی کمی نہ آئی۔ ایوب خان کی آمرانہ حکومت ہو یا بھٹو دور کی طفلانہ چالبازیاں، ضیاء دور کا مارشل لاء ہو یا کسی جمہوری دور کے آمرانہ ہتھکنڈے، آپ کی قیادت میں قلم کی حرمت کو کوئی خرید نہ سکا مختلف ادوار میں اہل صحافت کو زیر دام لانے کیلئے طاقت کے بل پر جھکانے کی کوشش بھی ہوئی۔ اشتہارات کی بندش بھی سہنی پڑی، لیکن کوئی آپ کے عزم و استقلال میں رتی بھر جنبش بھی نہ لا سکا۔ آپ کا تدبر، عزم اور استقلال محض نوائے وقت کیلئے ہی مخصوص نہ تھا بلکہ آپ صحافت سے منسلک تمام احباب کیلئے کسی سایہ دار شجر کی مانند تھے۔ آپ کی زندگی کا ہر دور جدوجہد سے عبارت رہا ہے۔ ہر دور کے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا فرض منصبی پورا کرنا آپ کا وطیرہ رہا ہے۔ آج اہل صحافت میں کون ہے ایسا کہ وہ کن حالات میں کیا طرزعمل اختیار کرے اور قلم کی حرمت کو بھی برقرار رکھے اور اسے دنیا کا کوئی لالچ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور بھی نہ کر سکے۔
اسلام اور پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی آپ کے اصولوں کی بنیاد تھی۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ مانتے تھے۔ اقبال کے فلسفے سے بے پناہ لگائو تھا۔ اتحاد بین المسلمین کے قائل تھے۔ ہر ایک سے محبت آمیز سلوک آپ کی شخصیت کا ایک دلکش پہلو تھا جو بھی آپ سے ملا ، آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ میری آپ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، ہر ملاقات میں سلام میں کبھی بھی سبقت نہ کرسکا۔ آپ ہی کی خواہش پر نوائے وقت کے صفحات پر اپنے کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ آپ کی بے باک شخصیت کے سحر سے ہر طالع آزما بھی مصلحت کوشی پر مجبور ہوجاتا تھا۔ آج پاکستان سمیت عالم اسلام کے حالات انتہائی گھمبیر ہوچکے ہیں۔ ہر طرف افراتفری اور بے حسی نظر آرہی ہے۔ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے گرد جال بن رہی ہیں۔ ان حالات میں آبروئے صحافت کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
آج ہمیں اپنے اعمال کی کوتاہیوں کی معافی مانگنی چاہئے اور عہد کرنا چاہئے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے گئے راستے پر چلیں گے۔ ہمیں آپس میں اتحاداور اتفاق کا حکم دیا گیا ہے۔ دو قومی نظریہ ایک آفاقی فکر ہے جس کی بنیاد مسلمانوں کا اتحاد ہی تھا۔ یہی وہ فلسفہ تھا جس کی بنیاد پر پاکستان بنتے ہی اقوام متحدہ میں فلسطین کا مقدمہ پاکستان نے بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا تھا۔ اللہ ہمیں سچ کے راستہ پر چلنے اور لیلۃ القدر کے مسافر ’’مجید نظامی‘‘ کی پیروی کرنے کی توفیق دے۔ میری دعا ہے کہ ان کے بنائے ہوئے ادارے نوائے وقت اور دی نیشن ہمیشہ قائم رہیں اور آبروئے صحافت کے اصولوں کی پاسداری کا چراغ یونہی اہل قلم اور وقت کے حکمرانوں کو روشنی دکھاتا رہے۔ (آمین)