پاکستانی میڈیا میں ’’نوائے وقت‘‘ نے جس قدر نظریۂ پاکستان اور کشمیرکاز کو اُجاگر کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ میڈیا میں بڑی بڑی نابغۂ روزگار شخصیات گزری ہیں لیکن ہر دور میں (باوردی ہو یا بے وردی) چٹان کی طرح اپنے مؤقف پر ڈٹی رہنے والی ایک ہی شخصیت گزری ہے، جس کا نام نامی مجید نظامی ہے۔ آپ انسان نما چٹان تھے، نظریۂ پاکستان کی دیوار چین تھے۔ وہ واحد اخبار نویس تھے جو ازخود سلطانوں کی چوکھٹ پر حاضری نہیں دیتے تھے بلکہ بڑے سے بڑا شخص انہیں ان کے دفتر یا رہائش گاہ پر جا کر ملنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا تھا۔ چھوٹے موٹے اطلاعاتی افسروں کی تو کیا بات، مارشل لائی دور کے سیکرٹری اطلاعات بھی ان سے سنبھل کربات کرتے تھے۔ انہوں نے صدارتی قافلوں میں دورہ بھارت کے کئی مواقع ضائع کئے۔
وہ کہتے تھے کہ میں ٹینک پر بیٹھ کر بھارت جاسکتاہوں، مسافر جہاز پر بیٹھ کر نہیں۔ ان کی پاک سرزمین سے محبت غیرمشروط تھی۔ انہیں صدر مملکت تک کے اعلیٰ منصب کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے صحافی ہونے کو ترجیح دی۔ وہ پاکستان کو معاشی اور عسکری حوالے سے مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، آپ حب الوطنی کا استعارہ تھے۔ علامہ اقبال کے مرد مومن تھے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے معماراعظم تھے۔ تحریک تحفظ ختم نبوتؐ پر ان کا ایمان تھا۔ ایوان اقبال کی تعمیر کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ حکمرانوں سے معرکہ آرائی میں ہمیشہ سرخرو ہوئے، اشتہارات کی بندش کی کبھی پرواہ نہ کی۔ قائداعظم اور علامہ اقبال ان کے آئیڈیل تھے، دونوں ہستیوں کے فرمودات آج بھی ’’نوائے وقت‘‘ کی زینت بنتے ہیں۔ مجید نظامی فطری طور پر باعمل انسان تھے، ان کی شخصیت میں ہیبت تھی کہ ہر کوئی ان کے سامنے مغلوب دکھائی دیتا تھا۔ تحریک پاکستان کے کارکنوں کی سرکاری سطح پر پذیرائی کرائی۔ بھارت کے بارے میں ان کے خیالات و نظریات سے ہر کوئی واقف تھا۔ بھارتی حکومت آج بھی ’’نوائے وقت‘‘ کو اپنا دشمن نمبرون سمجھتی ہے اور پاک بھارت دوستی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہے۔ آپ امن کی آشا جیسی منافقتوں کے قائل نہیں تھے۔مجید نظامی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں منعقدہ جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔ قائداعظم اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں آتے تھے اور مجید نظامی جوش میں آکر جلسوں میں نعرے بھی لگاتے تھے،ا ن کی بے باکی مثالی تھی۔ حکومتی خوف تو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا، وہ ہر بات منہ پر کہہ دیتے تھے۔ بڑے بڑے سیاستدانوں کی بات پر اختلاف بھی ان کے منہ پر کرتے تھے، وہ پیٹھ پیچھے بات کرنے کے قائل نہ تھے۔ وہ اپنی زندگی کے آ خری لمحے تک نظریۂ پاکستان کے پاسبان رہے۔ آپ نے آخری دم تک نظریۂ پاکستان کاتحفظ کرکے نئی نسل کو حقیقی پاکستانی قوم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
صحافتی دنیا میں ان جیسا اسلام اور نظریۂ پاکستان کا بے باک مبلغ پیدا نہیں ہوا۔ مجید نظامی کو اقبال کی شاعری اور داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب پر خاص عبور حاصل تھا۔ وہ صوفیاء اور علماء حق کا بے پناہ احترام کرتے تھے۔ آپ کے دنیا بھر کی روحانی درس گاہوں کے ساتھ رابطے اور تعلقات تھے۔ شاید ہی کوئی بڑا صحافی ایسا ہوگا جس نے ’’نوائے وقت‘‘ میں ملازمت نہ کی ہو۔ آپ کے تربیت یافتہ اخباری کارکن بن گئے۔ آپ کا یہ اعزاز ہے کہ لیلۃ القدر میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ یہ وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جس میں ہر مومن اور عاشق رسولؐ کی مغفرت لاریب ہے!
٭…٭…٭