لاہور(بزنس رپورٹر) پاکستان میں تعمیرات واحد شعبہ ہے ،جہاں نجی و سرکاری میدان میں پورا سال کام جاری رہتا ہے، یہ شعبہ ملک کی معیشت میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے، کنسٹرکشن انڈسٹری میں کوانٹٹی سرو یئرز کا شعبہ ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعمیرات کا سارا شعبہ انجینئرز کے ہاتھوں میں انجام پذیر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، سول انجینئرنگ اور آرکیٹیکچر میں ایک خاص مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے، جسے کوا نٹٹی سر و یئرز کا نام دیا جاتا ہے گو کہ یہ تعمیرات کے شعبہ میں بہت اہم اور بنیادی نوعیت کا حامل ہے مگر ہمارے ملک میں اسے وہ اہمیت اور مقام حاصل نہیں ہے جو بیرون ممالک میں کاسٹ منیجمنٹ یا کوا نٹٹی سرونگ کو حاصل ہے۔ پاکستان میں اس شعبہ سے متعلق چند ہی شخصیات اور ادارے اپنے تئیں اس کام کو انجام دے رہے ہیں، اس حوالے سے سید حسن بنیاد ’’کیو ایس کنسلٹنٹ کے بانی ‘‘ہیں۔ کوانٹٹی سرونگ کی کنسلٹنسی کو پاکستان میں متعارف کرانے کیساتھ وہ 1983ء سے آزادانہ طور پر پریکٹس کر رہے ہیں۔ سید حسن بنیاد اس شعبہ میں اپنے نام اور کام سے شہرت حاصل کرنے کیساتھ ساتھ نوجوانوں میں کوائنٹٹی سرونگ ،کاسٹ انجینئرنگ جیسے شعبہ کو متعارف کرارہے ہیں۔ آج ہم نے اسی حوالے سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا ہے۔ کوا نٹٹی سرو یئرز کے شعبہ کے انتخاب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ1979ء میں انٹر کے بعد گیمن پاکستان کمپنی میں ، بحثیت کیو ایس کلرک بھرتی ہوا، یہاں حبیب الدین صاحب سے کام سیکھا اورمزید تعلیم جاری رکھی، پھر اس شعبہ میں میری دلچسپی بڑھتی گئی، برٹش لائبریری سے لاتعداد کتابیں اس موضوع پر پڑھیں ملازمت کا سلسلہ بھی جاری رہا ،گیمن پاکستان کے بعد پاک لینڈ سیمنٹ میں بھی ملازمت کی، اسی دوران میرے اندر کیو ایس شعبہ میں اپنا کام شروع کرنے کا شوق وجذبہ پیدا ہو،ا میں نے ایک کرائے کی جگہ لے کر کیو ایس کنسلٹنٹ کمپنی کا آغاز کیا ۔ابتدا میں میں اپنی تنخواہ سے اس دفتر اور سٹاف کے اخراجات نکالتا ،کچھ عرصے بعد مجھے پہلا کام ملا، اس کے بعد اللہ کا احسان ہے کہ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے آج اپنا آفس چلاتے ہوئے چالیس سال ہو رہے ہیں۔اس طرح کوانٹٹی سروے میں میری نالج اور دلچسپی بڑھتی گئی 1998ء میں کینیڈ ا چلا گیا۔ وہاں میں نے اس شعبہ میں مزید تعلیم حاصل کی اور اے اے سی آئی ای سے سرٹیفکیٹ کنسلٹنٹ کاسٹ سی سی سی لائسنس لے کر پاکستان آیا اور اپنے کام کو رن کرنا شروع کیا۔پاکستان میں اس وقت میں دوسرا آدمی تھا جو اس شعبہ میں موجود تھا، ورنہ لائسنس یافتہ سرٹیفائیڈ افراد گلف یا امریکہ میں تھے، میں نے کاسٹ مینجمنٹ کے شعبہ میں سینکڑوں لوگوں کو تر بیت دی جو آج مختلف جگہوں پر اس شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔ کاسٹ مینجمنٹ کے مضمون کی تعلیم و تربیت سے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے سرکاری سطح پر تو مجھے کوئی کوشش ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ ہم نے کاسٹ مینجمنٹ کو بحثیت مضمون درجہ ہی نہیں دیا ہے بہرحال میں اس کوشش میں ہوں کہ ہمارے ملک میں بھی کاسٹ انجینئر کی ڈگری دی جائے ،ہم نے اس کیلئے ؒٗ بہت کوشش کی ہے بلکہ یہ اب میرا خواب بھی ہے، جس کی تعبیر کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہا ہوں ۔کوا نٹٹی سرو یئر انسٹیٹیوٹ کا سٹرکچر ڈیزائن کیا ہے، مختلف ملکی و غیر ملکی یونیورسٹیوں سے رابطے میں ہوں، اس مضمون کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوجائے گا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اس شعبہ کی اہمیت سے ناواقف ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہم اسے مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔کنسٹریکشن کاسٹ میں کیسے کمی لائی جا سکتی ہے، اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں مہنگائی کے سبب یا مارکیٹ پریشر کی وجہ سے ابتداء میں جو تخمینہ لگایا جاتا ہے وقت پر تعمیرات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کاسٹ بڑھ جاتی ہے، اس کاسٹ کو کم کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ایمانداری اور پیشہ وارانہ مہارت سے کام لیا جائے پوری دنیا میں مہنگائی بھی ایک سسٹم کے تحت بڑھتی ہے لیکن ہمارے ملک میں قیمتوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، جب جو چاہتا ہے، جس طرح چاہتا ہے قیمتوں کو آسمان تک لے جاتا ہے، جس کی وجہ سے تعمیرات کا شعبہ وہ آؤٹ پٹ نہیں دے رہا جو ملکی ترقی میں اس کا حصہ بنتا ہے میں یہاں اپنی مثال دیتا ہوں میری کمپنی کے دیئے گئے تخمینے اگر غلط یا آگے پیچھے ہوتے تو آج 40 سال سے ہم کیو ایس کنسلٹنٹ کے نام اور معیار پر اپنی اوراپنے بیس پچیس ملازمین کی دال روٹی نہ چلا رہے ہوتے۔اللہ کا شکر ہے کہ درست تخمینہ کبھی بجٹ آؤٹ نہیں کرتے، دراصل شعبہ میں پیشہ وارانہ مہارت اور تعلیم بہت ضروری ہے اس کے بغیر آپ کسی بھی شعبہ کو جدید خطوط پر نہیں چلا سکتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک میں کوانٹٹی سرونگ کی تعلیم وترتیب کا باقاعدہ ا ٓ غاز نہیں ہوا توآئندہ دس سالوں میں یہاں غیر ملکی کمپنیاں ہی یہ خدمات انجام دے رہی ہوں گی اور مقامی کوانٹٹی سروئیر کلرک بن کر کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ہماری کمپنی کیو ایس کنسلٹنٹ پاکستان کے علاوہ خلیجی ممالک وسطی ایشیا، جنوبی افریقہ اور شمالی امریکہ میں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔