جمود ٹوٹنے کی خوشگوار فضا

وزیراعظم میاں شہبازشریف نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اعتماد کا دوبارہ ووٹ حاصل کرلیا۔ ایوان میں موجود 190 ارکان میں سے 180 ارکان نے اعتماد کے ووٹ میں وزیراعظم کی حمایت کی۔ اعتماد کے ووٹ کے بعد ہاﺅس میں خطاب کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ ایوان نے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ وہ پارلیمان کا مان نہیں توڑیں گے۔ کوئی مجھے گھر بھجوانا چاہتا ہے تو ہزار بار جانے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی عزت‘ توقیر‘ احترام اور اس کا آئینی اختیار دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اور عوام کے منتخب ایوان کے پاس یہ اختیار ہمیشہ رہے گا جسے چیلنج کرنا سینہ زوری ہے۔ انکے بقول سیاسی گفتگو اور مذاکرات کا ایجنڈا پورے پاکستان میں ایک ہی دن صاف شفاف الیکشن کے انعقاد کا ہے۔ ہمیں اس ملک کی تعمیر کی جو ذمہ داری ملی ہے‘ وہ ہمیں نبھانے دی جائے۔ 
وزیراعظم نے کہا کہ عدلیہ کو آئین ری رائیٹ کرنے کا قطعاً اختیار نہیں‘ ہمیں توہین عدالت کا وار کرنے کی دھمکی دی گئی اور کہا گیا کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت کھو بیٹھا ہے تو آج اس ایوان نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ نہیں مانتے۔ ہم چار‘ تین کا فیصلہ مانتے ہیں۔ ہمیں گفتگو کرنے کیلئے کہا گیا۔ ہم سیاست دان ہیں‘ ہمارے ہاتھ میں بندوق یا توپ تو درکنار‘ چھڑی تک نہیں۔ ہم نے اپنی اتحادی جماعتوں کو قائل کیا کہ بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ بات چیت کا ایجنڈا کیا ہے۔ یہ ایجنڈا ایک ہی دن پورے میں ملک صاف شفاف انتخابات کا ہوگا۔ انکے بقول 2018ءمیں پی ٹی آئی کو جتوانے کیلئے بدترین دھاندلی کی گئی۔ یہ سازش کس طرح کی گئی‘ اب سب سامنے آرہا ہے۔ خواجہ طارق رحیم اور ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کے ذریعے سازش کھل کر سامنے آگئی ہے۔ 
یہ امر واقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی بنیاد پر پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کے بعد گزشتہ ایک سال سے ملک میں سیاسی افراتفری‘ عدم استحکام اور انارکی کی فضا گرمائی جاتی رہی ہے اور عمران خان کی اقتدار میں ہر صورت واپسی کے ایجنڈے کے تحت پورے سسٹم کو اتھل پتھل کرنے کی راہ ہموار کی جاتی رہی جبکہ آئینی ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں کو بھی رگیدنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ بادی النظر میں ایک بیانیے کے تحت یہ ایجنڈا عمران خان کو عوامی مقبولیت کی انتہا تک پہنچانے کا تھا جس میں پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں میں موجود اسکے حامیوں نے کامیابی بھی حاصل کی مگر درحقیقت یہ ایجنڈا ملک اور سسٹم کو کمزور کرکے بیرون ملک پاکستان کے ایک ناکام ریاست ہونے کا تصور اجاگر کرنے کا تھا۔ بعض ریاستی اداروں میں عمران خان کی اس سیاست کو جس طرح سہولت کاری حاصل ہوئی‘ یہ سارے معاملات کسی نہ کسی حوالے سے اب کھل کر سامنے آرہے ہیں جبکہ اس سیاست نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے اندر بھی نقب لگائی جس کے نتیجہ میں سپریم کورٹ واضح طور پر تقسیم ہوتی نظر آئی۔ 
عمران خان کی سیاست کا مقصد ملک اور سسٹم کے استحکام کا ہوتا اور آئین و قانون کی پاسداری اور انصاف کی عملداری ان کا مطمح نظر ہوتا تو وہ منتخب ایوانوں میں بیٹھ کر تعمیری کردار ادا کرتے اور اتھل پتھل کا راستہ اختیار نہ کرتے مگر انہوں نے نہ صرف خود تواتر کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھنا گوارا نہ کیا بلکہ اپنے ارکان کے اجتماعی استعفوں کی غلط روایت بھی ڈالی۔ پھر انہوں نے ضمنی انتخابات میں تمام نشستوں پر خود امیدوار بننے اور جیت کر پھر اسمبلی سے باہر آنے کا راستہ اختیار کیا جبکہ سیاسی خلفشار کی فضا برقرار رکھنے کے آخری حربے کے تحت انہوں نے اپنے وزرائے اعلیٰ کے ہاتھوں دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرا دیں جس کے بارے میں انہوں نے اب انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے کہنے پر اسمبلیاں توڑی تھیں۔ 
بے شک وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو قبل از وقت اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس دینے کا اختیار حاصل ہے مگر اس اختیار پر عدالتی چیک بھی موجود ہے کہ کہیں یہ بدنیتی کے تحت تو استعمال نہیں ہوا۔ اس تناظر میں دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا معاملہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا متقاضی تھا تاہم انہوں نے ازخود نوٹس ان اسمبلیوں کے آئینی میعاد کے اندر انتخابات کے معاملہ پر لیا اور پھر اس ایشو پر سیاسی فضا اتنی مکدر ہوئی کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ عملاً ایک دوسرے کے مدمقابل آگئی۔ ریاستی اداروں کے باہمی ٹکراﺅ کا نتیجہ بھی دیوار پر لکھا نظر آرہا تھا اور متعلقین آگ ٹھنڈی کرنے کی کوششوں کے بجائے آگ کے شعلے مزید بھڑکانے میں مگن تھے۔ عمران خان اپنے قرار دیئے گئے چوروں ڈاکوﺅں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا اپنی توہین سمجھ رہے تھے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ پر تکیہ کئے بیٹھے تھے کہ حکومت اور پارلیمنٹ توہین عدالت کے جرم میں نااہل ہو کر گھر جائیگی اور انکی اقتدار میں واپسی کے راستے کھل جائیں گے۔ جمعرات 27 اپریل کا دن اس حوالے سے اہم سمجھا جا رہا تھا تاہم چیف جسٹس کی سربراہی میں فاضل بنچ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دوراندیشی اور معاملہ فہمی کو پیش نظر رکھا اور ایک ہی دن انتخابات کی تاریخ کے تعین کیلئے گیند سیاست دانوں کی کورٹ میں پھینک دی۔ 
بلاشبہ معاملات کی گتھی سلجھانے کا یہی صائب راستہ ہے اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن قیادتوں نے بھی اپنی اپنی اناﺅں کے خول سے باہر نکل کر بالآخر اسی راستے کا انتخاب کرلیا ہے اور گزشتہ روز پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے حکمران اتحادیوں کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت اپنی پارٹی کو ان مذاکرات سے الگ رکھا ہے تاہم چیئرمین سینٹ بھی دوطرفہ مذاکرات کیلئے رابطے کے پل کا کردار ادا کر رہے ہیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ تمام قومی سیاسی قیادتیں بالآخر ایک میز پر بیٹھ کر ایک ہی دن انتخابات کی کسی تاریخ پر متفق ہو جائیں گی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ہاﺅس میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا چیلنج قبول کرکے اس میں سرخروئی بھی حاصل کرلی ہے تو ان سے یہی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ نہ صرف پورے ہاﺅس کو اپنے ساتھ لے کرچلیں گے بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کیلئے بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرینگے اور کسی بھی آئینی ریاستی ادارے پر کوئی حرف نہیں آنے دینگے۔ خدا اس وطن عزیز کا محافظ و نگہبان ہوں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...