دارالعدل…محمد عارف ملک
muhammadarifmalik758@gmail.com
اسلام آباد جہاں جہاں سے زمین ہاؤسینگ سوسائٹی کے کیے زمین ایکوائر گئی وہاں ابھی تک جھگڑے چل رہے ہیں۔زیادہ تر لوگوں کو نہ متبادل زمین دی نہ معاوضہ لوگ آج بھی معاوضہ کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رھے ہیں زمین کا مالک کوئی اور تھا معاوضہ کوئی اور لے گیا۔ خود ساختہ قبضہ جات ظاہر کرکے آپس میں بندر بانٹ کرلی۔مالک ابھی تک منہ دیکھ رہے ہیں جبکہ مافیا قبضہ شو کرکے کروڑوں ڈکار کر لیے
متاثرہ مقامی لوگ انصاف کے لیے ابھی تک دھکے کھا رہے ہیں اور عدالتوں میں انصاف کے لیے سرگرداں ہیں ۔
ہاں میں عرض کررہا تھاکہ بے ہنگم ہاؤسینگ سوسائٹیاں جن کا دائرہ اختیار دن بدن وسیع ھوتا جارہا ہے۔ان کی حدود پرانے پنڈی شہری علاقے یا پرانے اسلام آباد بشمول دیہی علاقوں تک محدود نہیں ۔ قدرتی شاہکار کی تباہی بہت آگے چلی گئی ہے،یہاں پر تو زرعی زمینیں تقریباً ختم ھو چکی ہیں۔اب اس سے آگے میدان سج رھے ہیں۔ بڑے بڑے شہر بغیر کسی پلاننگ،بغیر کسی حکمت عملی کے جنگلوں پہاڑوں ندی نالوں کو تخت و تاراج کرتے ہوئے بسائے جارھے ہیں۔ خدا کی پناہ چاھوں، اب آگے یعنی فتح جنگ،پنڈی گھیب چکوال نیلہ دلہہ تک چلی گئی ہے نیلہ و دلہہ کے چاروں اطراف تیزی سے زمین کی خریداری ھورہی ہے یہاں کا زمیندار قبل ازیں ایک انچ بھی فروخت نہ کرتا تھا، اور زمین کو اپنی ماں کہتا تھا اب بہت سے نوٹ دیکھ کر بیچ رہا ہے بڑے بڑے ڈریکولیاور رائل اسٹیٹ انویسٹر یہاں پر پہنچ گئے ہیں اور ان کو مقامی منڈی سے بڑے بڑے علاقہ فروش مل گئے ہیں جو بریج کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس طرح چکری روڈ موٹر وے تک بے ہنگم ہاؤسینگ سوسائٹیاں جن کا دائر چونترہ سے آگے تک پھیل رہا ھے کوئی روک ٹوک نہیں کسی این او سی کی ضرورت نہیں۔
ہر آنے والے حکومت کہتی ھے کہ کسی کو ہاؤسینگ سوسائٹی بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی گاہے بگاہے حکومتی ادارے چھوٹا موٹا آپریشن بھی کردیتیہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہاؤسینگ سوسائٹی کے انٹری گیٹ گرا کر میڈیا پر فوٹیج چلا دیتے ہیں۔مگر ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور،
سب کی ملی بھگت ھوتی ھے ۔یا یہ کہیں ادارے کمزور ہیں یا لالچ ان پر حاوی ہو جاتی ہے
سامعین آپ حیرت زدہ ھوں گے کہ اسلام آباد ضلع کی ابھی تک حدود کا تعین نہیں کیا گیا جو علاقہ سی ڈی اے کی زیر انتظام آتا ھے وہی شہری علاقہ ھے مگر دیہہ علاقہ تو تقریباً 200 موضعات پر مشتمل ہے بات یہی پر آکر رکتی تو پھر بھی بہتر تھا مگر بات آگے چلی گئی ہے جان بوجھ اسلام آباد کی حدود کا تعین نہیں کیا گیا نہ ہی اس سلسلہ میں قانون سازی کی گئی ہے۔کیونکہ ابھی بہت سی ہاؤسینگ سکیم بننی ہیں۔
ان سوسائٹیوں کی وجہ سے ہماری زمین کے زرعی مقاصد ختم ھورہے ہیں ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کے ستر فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں یا یوں کہیے کہ ہمارے ملک کے ستر فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زرعی پیداوار ہے اب انہی لوگوں نے طمع نفسانی کی خاطر کہ یکمشت اتنی بڑی رقم مل رہی ھے۔کوئی اور کاروبار کرلیں گے اس رقم سے اپنے بچوں کا شادی و بیاہ کرلیں ان کو نوکری کے لیے بیرون ملک بھیج دیں گے ویسے بھی کاشتکاری محنت والا کام ہے زمین۔ بیچ ڈالی ۔
آپ پاکستان کے جس علاقہ میں چلیں جائیں ہر جگہ توڑ پھوڑ اور زرعی زمینوں کی نوتوڑ ھورہی ھے سرکاری جنگل کا تو کوئی پرسان حال نہیں۔
قدرت نے ارض پاک کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ھے۔ٹھنڈی ،گرم اور معتدل ھوا، چار بدلتے موسم،اس کے اناج اورپھل ،بل کھاتی ندیاں،خوبصورت پہاڑ،آبشار ہری ہری زمین کا مخملی فرش
ان نعمتوں میں ایک نعمت جنگل ھے۔جنگل کو سبز سونے سے تعبیر کرنا بجا ہے۔جنگل ہماری زندگی ہے،جنگل کی وجہ سے موسموں پر خوش گوار اثر پڑتا ہے۔جنگل ہماری رونق ھے جنگل نہ ھوں تو ہماری زندگی پھیکی اور بدمزہ ھوگی جنگل جہاں ہمارے ملک کی خوبصورتی اور حسن نکھارتے ہیں وہاں ہماری زندگی میں اعتدال بھی لاتے ہیں،خدا کی مخلوق کا ایک بڑا حصہ جنگل کی بدولت قائم و دائم ہے جنگل میں سیکنڑوں جانور ہاتھی شیر ،چیتا،وغیرہ و دیگر حیوانات جنگل میں پلتے ہیں وہی سے خوراک حاصل کرتے ہیں ان کیییاللہ تعالیٰ نے جنگل ہی موضوع جگہ منتخب کی ہے یہ خدا کا نظام ہے یہ وہی سے کھا کر گھنے درختوں اور غاروں کیاندر زندگی گزارتے ہیں اب ان کی زندگی کو بھی سخت خطرناک لاحق ہو چکے ہیں جنگلات کے اور بھی فوائد ہیں جنگلات سے بے پناہ زرمبادلہ حاصل ھوتا ہے،جنگلات سے قیمتی لکڑی جیسے دیودارحاصل ھوتی ہے جنگلات سے پانی حاصل ھوتا ہے جس پر جانوروں اور انسانوں کی زندگی کا دارومدار ہے جنگل انسان اور حیوان کا دوست ہے جنگل کی وجہ سے فطرت میں نکھار ہے اس لیے جنگلات کا تحفظ کریں ان نباتیات یعنی درختوں سے ہمیں آکسیجن حاصل ھوتا ہے یہ فضائی آلودگی سے بھی بچاتے ہیں یہ ہماری زمین کا درجہ حرارت قائم رکھتے ہیں درخت خوراک اور پانی کی طرح ضروری ہیں درختوں کا کاٹنا غیر عقلمندانہ فعل ہے جنگلوں کو تخت و تاراج کرنے اور درختوں کو کاٹنے سے گلوبل وارمنگ کا شدید خطرہ ھے یہ خطرہ اب تیزی سے منڈلا رہا ہے بلکہ گزشتہ چند سالوں سے شدید گرمی پڑ رہی ہے بارشیں بھی کم ھونی لگی ہیں زیر زمین سطح تک پانی ناپائید ہوچکا ہے
خطہ پوٹھوار اور ملکہ کوہسار جہاں پر بارشوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ندی نالے امڈ آتے تھے مکین زیر آب آجاتے تھے جڑواں شہروں میں میں دریائے سوہان و سواں نالہ کورنگ اپنے جوبن پہ آجاتے تھے۔ نالہ لئی کا بہاؤ بھی دیدنی ھوتا مگر گزشتہ چند سالوں سے بڑی بڑی ہاوسینگ سوسائٹیوں کے جابرانہ فعل سے جنگلوں و پہاڑوں کو تخت و تاراج کیے جانے سے موسم میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی ھے گرمی بھی زیادہ سردی بھی ناقابل برداشت ،اب موسم کا توازن بگڑ رہا ھے۔ابھی تو پیش بندی ھے جو حالیہ مارچ اپریل میں دیکھ رہے ہیں اللہ اس ملک کو سلامت تا قیامت رکھے ٹھںنڈی ھوائیں چلتی رہیں یہ پہاڑ و جنگل لہلہاتے رہیں نباتات حیاتیات اللہ کے گاتی رہیں ’’اے ارضِ پاک سلامت رھے تاقیامت رکھے‘‘