آج میں اپنے قارئین کی ملاقات ایک ایسے انگریز جنرل سے کرانا چاہتا ہوں جو ہماری جنگِ آزادی کاایک اہم کردار تھے۔ یہ ہے لیفٹنٹ جنرل سرفرانسس ٹکرLt. Gen. Sir Francis Tuker, K.C.I.E, C.B., D.S.O., O.B.E. برٹش انڈین آرمی کے مشہور جنرل تھے جنہوں نے اپنی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے بہت سے اعزازات حاصل کئے۔ ایک مرحلے پر ان کا نام پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک ملک کی فوج کے لئے آرمی چیف مقرر کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی جو بالآخر کسی نہ کسی وجہ سے کامیاب نہ ہوئی۔ موصوف جنرل صاحب دوسری جنگ عظیم کے ایک اہم کمانڈر تھے اور جنگ کے بعد انہیں ہندوستان میں کمانڈر ایسٹرن کمانڈ مقرر کیا گیا۔ یہ کمانڈ ہیڈ کوارٹر رانچی (بھارت) میں واقع تھا۔ یہ کمان وسیع علاقے پر پھیلی تھی جس میں صوبہ آسام۔ بنگال۔ اڑیسہ۔ بہار۔ اتر پردیش۔ دہلی اور مشرقی پنجاب تک کے علاقے شامل تھے جہاں تقریباً 150 ملین لوگوں کی آبادی تھی۔ یہ تمام لوگ مختلف مذاہب مختلف کلچر۔ مختلف زبانوں اور مختلف رسم و رواج سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں اہم سیاسی تحریکوں نے جنم لیا۔ پرورش پائی۔ ملکی حالات کو تہس نہس کیا اور بالآخر تقسیم ہند کا موجب بنیں۔ 31 جولائی 1947 کو ایسٹرن کمانڈ کی ذمہ داری میں دہلی بھی شامل کر دیا گیا اور یوں اس کمانڈ کی سرحدیں لاہور تک پھیل گئیں۔
1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے لیکر تقسیم ہند کے مکمل ہونے تک یہ شخص تمام اہم تاریخی واقعات کا حصہ رہا تو یوں اس نے نہ صرف حالات کا نزدیک سے مشاہدہ کیا بلکہ بطور فوجی کمانڈر کے اس عظیم تاریخی تبدیلی میں بہت اہم کردار بھی ادا کیا۔ تقسیم ہند کے خاتمے کے بعد یہ شخص جب واپس انگلینڈ گیا تو اس پر آشوب دور کے واقعات کو یادداشتوں کی صورت میں تحریر کیا جسے While Memory Serves کا نام دیا۔ یہ کتاب اس دور کا بہترین آئینہ ہے جس میں سے اس دور کے تمام حالات و واقعات۔ ان کے پس پر دہ عوامل اور وہ چہرے جو ایسے حالات پیدا کرنے کے ذمہ دار تھے صاف نظر آتے ہیں۔ اس وقت کے تمام حالات کا جائزہ لینا تو یہاں ممکن نہیں لیکن جو کچھ بے یار و مددگار مسلمانوں پر گزری اسکا ایک ادنیٰ سا خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تھی آزادی کی قیمت جو بر صغیر کے مظلوم و بے کس لوگوں کو ادا کرنی پڑی۔
دوسری جنگ عظیم ایک تباہ کن دور تھا جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ اس انسانی تباہی کے ساتھ ساتھ وسیع علاقوں اور ان علاقوں میں واقع املاک اور انفراسٹرکچر ز بھی برباد ہوئے جس کا اثر بعد کی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑا۔ اس جنگ کا فوج پر بھی بڑا منفی اثر پڑا۔ تقریباً 80-70 ہزار لوگ جاپانیوں کی قید میں چلے گئے۔ جاپانی پورا مشرقی ایشیا روندتے ہوئے برما تک پہنچ گئے اور خطرہ تھا کہ دہلی زیادہ دور نہ تھی۔ دوسرا جاپانیوں نے جنگی قیدی بننے والے ہندوستانی آفیسرز اور جوانوں کو اکٹھا کر کے انڈین نیشنل آرمی کے نام سے انگریزوں کے خلاف ایک مضبوط فوج کھڑی کر دی جس کی تعداد 20 ہزار سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ ویسے کچھ آزاد ذرائع ہندوستانی قیدیوں کی تعداد 70 سے 80 ہزار بتاتے ہیں جن میں انڈین نیشنل آرمی کی تعداد 60 ہزار کے قریب تھی۔ اس آرمی کی کمان ایک بہت ہی جو شیلے ہندو لیڈر سبھاش چندرا بوس کے ہاتھ میں دی گئی جس نے اس فوج کی خوب'' برین واشنگ‘‘ کی۔ اسے آزاد ہندوستان کی فوج کا رتبہ دیا گیا۔ اس فوج کا بنیادی مقصد انگریزوں کے خلاف لڑ کر ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔ یہ فوج انگریزوں کی نظر میں غدار اور نمک حرام تھی جبکہ ہندوستانیوں خصوصا ًہندوؤں کی نظر میں محب وطن تھی۔ اس آرمی میں کیپٹن شاہنواز ۔کیپٹن موہن سنگھ۔ لیفٹننٹ ڈھلوں۔ کیپٹن عبدالرشید۔لیفٹننٹ محمد اکرم جیسے جو شیلے فوجی آفیسرز شامل تھے۔ کیپٹن شاہنواز انڈین ملٹری اکیڈیمی سے اعزازی شمشیر لے کر پاس آؤٹ ہوا تھا۔ جنگ کے فوری بعد انگریز ان لوگوں پر غداری کا جرم لگا کر سزا دینا چاہتے تھے جبکہ گانگریس اور پڑھا لکھا ہندوستانی طبقہ انہیں فوجی ہیروز کا رتبہ دینے پر بضد تھے۔
جنگ ایک خوفناک عمل ہوتی ہے جس میں انسان بعض اوقات ہوش و حواس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ یہی کچھ دوسری جنگ عظیم میں ہوا۔ جنگ کا طویل عرصہ فوج نے نا مساعد حالات اور بہت پریشر میں گزارا۔ جونہی جنگ ختم ہوئی امید کی گئی کہ اب فوجی زمانہ امن کی پوزیشن پر جا کر گھر چھٹیاں جاسکیں گے اور فوجیوں کو آرام ملے گا تو وہ جنگ کے پریشر سے صحت یاب ہو جائیں گے۔ فوجی زمانہ امن کی پوزیشنوں پر آئے تو سہی لیکن انہیں آرام نہ مل سکا۔ ہندوستان میں تحریک آزادی زور پکڑ چکی تھی جس نے نسلی فسادات کو جنم دیا۔ ان فسادات پر قابو پانے کے لئے فوج کا استعمال ناگزیر ہو گیا اور یوں آرام کے منتظر فوجی آرام سے محروم ہو گئے۔ اکثر فسادات تو مذہبی نوعیت کے ہوتے جس میں ہندو مسلم گتھم گتھا ہوتے۔ دونوں طرف سے اموات ہوتیں۔ معاملات پولیس کے قابو سے باہر ہو جاتے۔ پھر فوج استعمال ہوتی تو دونوں فریق خاموش ہو جاتے۔ فسادات کی دوسری قسم انگریز حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے تھے جس میں ہندو مسلم اکٹھے ہو جاتے۔ ایسے فسادات کو جد و جہد آزادی کا نام دیا جاتا۔
ان فسادات کی پشت پر تین طاقتیں تھیں۔ اول یونیورسٹی طلبا جو معمولی معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر مظاہرے شروع کر دیتے۔ پھر ان مظاہروں میں پبلک بھی شامل ہو جاتی۔ چند ایک اموات ہوئے بغیر یہ مظاہرے ختم نہ ہوتے۔ ان مظاہروں میں کلکتہ یونیورسٹی کی ہندو تنظیمیں پیش پیش ہوتیں۔ دوسری اور سب سے اہم طاقت ہندو مہا سبھا خصوصاً اس کی مسلح ونگ راشٹریہ سیوک سنگھ تھی۔ یہ تنظیم بنیادی طور پر سخت مسلمان مخالف تھی۔ یہ مختلف طریقوں سے ہندو مسلم فسادات شروع کراتی اور پھر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتی۔ با الفاظ دیگر یہ تنظیم مسلمانوں کو کسی صورت بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ فسادات شروع کرانے کے لئے عجیب و غریب طریقے استعمال کرتی مثلاً کسی جگہ خود ہی اپنے کسی آدمی کو زخمی کر کے افواہ اڑا دیتی کہ فلاں فلاں علاقے میں مسلمانوں نے اتنے بے گناہ ہند و قتل کر دیتے ہیں۔ یا ہندو خواتین کو چھیڑا ہے۔ اکثر اوقات تو اس نوعیت کے پوسٹر چھپوا کر تقسیم کئے جاتے۔ ایک دفعہ کچھ لوگوں کے سامنے کچھ لڑکیوں کو پریڈ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ مہا سبھا نے الزام لگا دیا کہ مسلمان غنڈوں نے ہندو نو جوان لڑکیوں کو اغوا کر کے اپنے سامنے پریڈ کرائی ہے۔ پھر فسادات ایسے شروع ہوئے کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتے۔ مسلمانوں کی دوکانیں۔ مکانات حتیٰ کہ گاؤں کے گاؤں جلا دیئے گئے۔ کلکتہ میں مسلمانوں کی بستیاں اکثر نشانہ بنیں اور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔ ان حالات میں کسی مسلمان کے جان و مال کی حفاظت ممکن ہی نہ تھی۔
تیسری اہم طاقت کانگریس اور ہندو لیڈرز تھے۔ ان لوگوں نے ہندو اور یہودی تاجروں کو ساتھ ملا رکھا تھا جن سے انہیں بہت پیسہ ملتا۔ پھر اس پیسے سے یہ ہندو غنڈوں کو دیہاڑی پر لے آتے اور فسادات پھیلاتے۔ ان میں سے اکثر غنڈے خنجر زنی کے ماہر تھے۔ چلتے چلتے دو چار آدمیوں کو قتل کرنا ان کے لئے کھیل سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ان کا نشانہ بھی مسلمان ہی ہوتے۔ بعد میں سکھ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور وہ جہاں بھی جاتے علاقے کو خون میں نہلا دیتے۔ مارچ 1946 کے بعد تو فسادات اور قتل و غارت روزمرہ کے معمول بن گئے۔ کہیں نہ کہیں شروع رہے۔ انہیں شروع کرنے کے لیے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہ ہوتی۔ کسی معمولی سے واقعہ یا افواہ پر اچانک فسادات پھوٹ پڑتے اور کافی لوگوں کی جان لے لیتے۔
٭…٭…٭
تاریخ کے زخم
Apr 29, 2024