یہ 1990ء کے ابتدائی مہینوں کا واقعہ ہے۔ شیزان لاہور کی بالائی منزل پر والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور نے کالم نگار کا شاعر لاہور شعیب بن عزیز سے تعارف کروایا۔ اب وہ کون ہے جس نے ’اب اداس پھرتے ہو گرمیوں کی شاموں میں۔ اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں والا شعر پڑھا سنا نہیں؟ کالم نگار اس مشہور زمانہ شعر کہنے والے شاعر کے سامنے تھا۔کالم نگار نے چھوٹتے ہی پوچھا:’’آپ دوسرا شعر کب کہہ رہے ہیں‘‘۔ اس پر وہ بس مسکرا دیئے۔ان کی شوخ و شنگ مسکراہٹ ان کے شعروں کے طرح ہی طرح دار تھی۔ ان کے نام کی ترکیب عربی ہونے کی وجہ ان کا خاندانی مذہبی پس منظر ہے۔ خدا پرستی انہیں ورثے میں ملی ہے۔ خدا پرستی کے اس ماحول میں ان کی اللہ میاں سے خاصی حضوری رہی۔ حضوری کی اس کثرت نے ان کے اللہ میاں سے تعلقات میں خاصی بے تکلفی پیدا کر دی ہے۔ پھر یہ بے تکلفی ان کی شاعری کا اہم موضوع بھی ہے۔ شاعر مشرق نے گستاخی و بیباکی کو محبت کی رمزیں قرار دیا ہے۔ لیکن شعیب گستاخیوں سے پرے پرے ایک مودب بے باکی سے عجب سی بات کہہ جاتے ہیں۔سننے والا دیر تک سوچتا رہتا ہے۔ برطانوی آئین کی طرح ان کی شاعری بھی غیر تحریری ہے لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ ایک تبدیلی ضرور آئی ہے۔ شعیب فیس بک کے پیج پر اپنا کوئی نہ کوئی شعر ٹانکتے رہتے ہیں۔ سو بات تو چل نکلی ہے دیکھئے اب ان کی کتاب کب ہاتھوں میں آتی ہے؟تھوڑی سی دیر ہے، نا امیدی نہیں۔ ان کی شاعری کا انتخاب کالم نگار کے حافظہ سے:۔
زمیں کیسی ہو اس پہ آسماں کیسا بنانا ہے
مکیں سے پوچھ تو لیتے مکاں کیسا بنانا ہے
آسماں والے نے اتنا نہ پلٹ کر پوچھا
وہ جو مسجود ملائک تھا بشر کیسا ہے
کون سمجھے گا مرا درد مہ و سال شعیب
میں نے لمحات خریدے ہیں زمانے دے کر
ایک ذرہ بھی نہ مل پائے گا میرا مجھ کو
زندگی تونے کہاں لا کے بکھیرا مجھ کو
دعا نہ مانگو تو غم سے رہائی دیتا نہیں
سنائی تو دیتا ہے اس کو دکھائی دیتا نہیں
خوب ہو گی یہ سرادہرکی لیکن اس کا
ہم سے کیا پوچھتے تو ہم نے ٹھہرنا کب ہے
اس کے ہمسایہ میں تم آن بسو
درد رہتا ہے اکیلا دل میں
اب دیکھئے یہ رات کس انداز سے گزرے
بادہ بھی بہت ہے غم جاناں بھی بہت ہے
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں تیرے فقیروں میں‘ میں ترے غلاموں میں
خواب اور خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا
یہ اتنی سرخ آنکھیں شہر میں اچھی نہیں لگتیں
تیرے جاگے ہوؤں کا دیر تک سونا ضروری ہے
مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے
کہ مِرا دوست مجھ جیسا نہیں ہے
لکھا رکھا ہے عہد ترک الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے
کسی کی یاد سے اس عمر میں دل کی ملاقاتیں
ٹھٹھرتی شام میں اک دھوپ کا کونا ضروری ہے
آج پلکوں کی طرف آنکلا
تھا یہ اک اشک پرانا دل میں
درِ جاناں پہ جبیں چھوڑ آئے
کام کی چیز وہیں چھوڑ آئے
وہیں چھوڑ آئے دھڑکتا ہوا دل
شعلے کو خس کے قریب چھوڑ آئے
مجھے یہ دنیا کے دھندے خراب کیا کرتے
میں اک دھیان میں رہتا تھا کام کرتے ہوئے
دل مرحوم یاد آتا ہے
کیسی رونق لگائے رکھتا تھا
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
نہ بھٹک جائیں کہیں ظلمت خورشید میں لوگ
میں نے دن کوبھی دیا دل کا جلا رکھا ہے
پختہ گھروں کو چھوڑ کر کشتی میں آگئے
دریا کا خود لوگوں کو دریا میں لے گیا
دل آباد کا برباد بھی ہونا ضروری ہے
جسے پانا ضروری ہے اسے کھونا ضروری ہے
جناب دل بہت نازاں نہ ہو داغ محبت پر
یہ دنیا ہے یہاں یہ داغ بھی دھونا ضروری ہے
بکھر جائے گا ان گلیوں میں نیلے کانچ کی صورت
یہ زعم آسماں سارا ستارے ٹوٹنے تک ہے
اب آنکھ لگے یا نہ لگے میری بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے
ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن
اک خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا
میں آنسوؤں کے تسلسل میں دل کا سوچتا ہوں
کہ ندیوں میں بہا دوں گا یہ خزانہ کیا
تصویر یاس بن گئے جو تجھ سے مل کے آج
اس کا شمار شہر کے زندہ دلوں میں تھا
غنچہ چٹکا تھا کہیں خاطر بلبل کیلئے
میں نے یہ جاناکہ مجھ سے کہا ہو جیسے
بینر پہ لکھے حرف خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریربھی دیکھے