سپریم کورٹ کا تین دن میں  تجاوزات ختم کرنے کا حکم 

سپریم کورٹ نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے جس میں صرف کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے پیمرا کو اس ضمن میں پبلک سروس میسج شائع اور نشر کرنے کا بھی کہا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 3 دن میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھی تجاوزات قائم کر رکھی ہیں، شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت روکنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ تجاوزات کا مسئلہ ہر دور میں سر اٹھاتا رہا ہے۔ ماضی میں حکومت کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے بڑے آپریشنز کیے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ انھی جگہوں پر دوبارہ تجاوزات نظر آنے لگیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ایسے کسی مسئلے کے حل کے لیے قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو وہ عام آدمی دوبارہ تب تک ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہیں کرتا جب تک اسے کسی بااثر شخصیت کی آشیرباد حاصل نہ ہو۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جس سڑک، فٹ پاتھ، بازار اور مارکیٹ میں سے تجاوزات ختم کیے جاتے ہیں، کچھ ہی عرصے میں وہاں پھر سے قبضہ ہو جاتا ہے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ تجاوزات کرنے والے مافیا کو کسی نہ کسی طرح کسی بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے۔ اسی طرح لاہور شہر کی نہایت اہم اور مصروف ترین سڑک لوئر مال روڈ پر ایوانِ عدل اور سول سیکرٹریٹ کے اردگرد ایک بڑا حصہ دن کے آغاز سے شام تک پارکنگ لاٹ بنا رہتا ہے اور کسی حکومت میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس مسئلے کا حل فراہم کرسکے۔ محسن نقوی جب نگران وزیراعلیٰ تھے ان کے دور میں ضلعی انتظامیہ نے اہم بازاروں، مارکیٹوں اور شاہراہوں پر تجاوزت کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا مگر چند جگہوں پر فوٹو سیشن کروا کر کام ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ کے حکم نامے کے بعد ضلعی انتظامیہ ایک بار پھر حرکت آگئی ہے اور تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک تجاوزات کرنے والے مافیا کے خلاف سخت کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی اور اس امر کا کھوج نہیں لگایا جاتا کہ کون بااثر شخصیات ایسے افراد اور گروہوں کی سرپرستی کرتی ہیں اور انھیں قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا تب تک تجاوزات اور قبضہ مافیا پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...