جسٹس منصور علی شاہ کے  نظامِ انصاف پر تحفظات

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدلیہ کی تاریخ سے زیادہ خوش نہیں ہوں۔ دنیا میں ہماری عدلیہ سے متعلق ڈیٹا قابلِ تشویش ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے۔ پاکستان میں 24 لاکھ کیسز زیرِ التوا ہیں۔ زیرِ التوا کیسز کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہے۔ ایک چیف جسٹس ہمیں ایک طرف، دوسرا دوسری طرف لے جاتا ہے۔ جب تک افراد سے نکل کر نظام کی طرف نہیں آئیں گے اسی طرح معاملہ چلے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں اور ممکنہ طور پر چند ماہ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے ہیں۔ انھوں نے عدلیہ اور نظامِ انصاف کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اسے مسترد کیا جانا تو دور کی بات ہے عدم اتفاق بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے بہت سی خرابیوں کا تذکرہ کیا اور ان خرابیوں کو دور کرنے کی تجاویز بھی دیں۔ عدلیہ کے اندر موجود خرابیوں کو درست کرنا بھی عدلیہ ہی کا کام ہے۔ عدلیہ کے حوالے سے عدلیہ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں جبکہ خرابیوں سے متاثر انصاف کے لیے جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ جن 24 لاکھ لوگوں کے مقدمات زیر التوا ہیں جلد فیصلے نہ ہونے سے ان پر کیا گزرتی ہوگی۔عدلیہ ریاست کے ستونوں میں سے اہم ترین ہے، عام آدمی اس کے ساتھ اسی وقت دل و جان سے جڑ سکتا ہے جب وہ اس کی کارکردگی سے مطمئن ہو۔ ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا عام آدمی کو عدلیہ پر اعتماد ہے ؟ یہ بھی دیکھنا ہے کہ عالمی سطح پر ہمارے عدالتی نظام کی ساکھ کیا ہے ؟ اگر ہماری عدلیہ عالمی رینکنگ میں 130 نمبر سے بھی پیچھے ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا ہمارے نظامِ انصاف کو کس طرح سے دیکھے گی۔ ایک چیف جسٹس، بقول منصور علی شاہ صاحب کے، ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف لے جاتا ہے، ایسی صورتحال کو بہتر کس طرح سے کیا جا سکتا ہے؟ افراد سے نکل کر نظام کی طرف کیسے آیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے ایسے ماہرین قانون کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے جن کی بات چیف جسٹس صاحبان بھی سنجیدگی سے سنتے ہوں۔

ای پیپر دی نیشن