شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کی حوصلہ شکنی مت کریں

تین روز پہلے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے گھریلو یا کمرشل سولر پینل لگانے والوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دیدی ہے۔ خبر میں بتایا گیا کہ سی پی پی اے نے اس سلسلے میں سمری وزارت بجلی کو ارسال کر دی ہے۔ گھریلو یا کمرشل سولر پینل لگانے والوں سے فی کلو واٹ 2 ہزار روپے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ 12 کلو واٹ کا سولر پینل لگانے والے صارفین سے 24 ہزار روپے وصول کیے جائیں گے۔ پاور ڈویژن نے سی پی پی اے کی سمری منظوری کے لیے وزیراعظم کو بھجوا دی ہے۔ ملک میں نصب کیے گئے سولر پینل کے نرخوں پر نظرثانی کی تجویزبھی زیرغور ہے۔ سمری منظور ہونے کے بعد سولر پینل کے نرخ کم کرنے کی درخواست نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں دائر کریں گے۔
اگلے دن پاور ڈویژن نے سولر پاور پر فکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں، سی پی پی اے یا پاور ڈویژن نے حکومت کو ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صاحبِ ثروت لوگ بے تحاشا سولر پینل لگا رہے ہیں، گھریلو، صنعتی صارفین سمیت حکومت کو بھی سبسڈی کی شکل میں 1 روپے 90 پیسے کا بوجھ برادشت کر نا پڑ رہا ہے، اس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں، یہ 1.90 روپے غریبوں کی جیب سے نکل کر متوسط اور امیر طبقے کے جیبوں میں جا رہے ہیں، اگر یہی سلسلہ جاری رہا توغریب صارفین کے بلز کم از کم 3.35 روپے فی یونٹ کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔ 2017ء کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کا مقصد سسٹم میں متبادل توانائی کو فروغ دینا تھا، 2017ء کے بعد اب ایک ایسا مرحلہ آیا ہے کہ اس سولرائزیشن میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا، اب ایک نئے نرخ دینے کی ضرورت ہے ہم اس پورے نظام کو سٹڈی کر رہے ہیں، ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کر رہے ہیں جن سے غریب کو مزید بوجھ سے بچایا جا سکے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈیڑھ سے دو لاکھ نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی سرمایہ کاری کو تحفظ دیں گے۔
ابھی اس بات کو دو برس مکمل نہیں ہوئے جب حکومت کی جانب سے سولر انرجی انیشی ایٹو کے نام پر ترجیحی بنیادوں پر نو ہزار میگاواٹ کے نئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اگست 2022ء میں مذکورہ اعلان کرتے ہوئے ہی بتایا گیا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کے نرخ بڑھ رہے ہیں اور حکومت ان پر قابو پانے کے لیے چودہ ہزار میگا واٹ بجلی شمسی توانائی کے ذریعے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں سے نو ہزار میگا واٹ کے منصوبوں کا فوری آغاز کیا جائے گا۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے نہ صرف امپورٹ ڈیوٹی ختم کی جائے گی بلکہ انھیں انکم ٹیکس میں بھی چھوٹ دی جائے گی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اعلان نہیں تھا، اس سے پہلے بھی حکومت بارہا یہ کہہ چکی تھی کہ وہ شمسی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
حکومت کے ایسے ہی اعلانات سے حوصلہ پا کر بہت سے لوگوں نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی اور سولر انرجی پینلز وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھتے ہوئے صارفین نے بھی شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کی جانب توجہ دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں نیٹ میٹرنگ کنکشن والے صارفین میں مالی سال 2023-24ء کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران تقریباً 76 فیصد اضافہ ہوا، یعنی جولائی 2023ء سے فروری 2024ء کے دوران ایسے صارفین کی تعداد 63703 سے بڑھ کر 111800 ہوگئی ۔ جون 2023ء تک نیٹ میٹرنگ کنکشن کے ذریعے جو شمسی بجلی پیدا کی جارہی تھی اس کی مجموعی صلاحیت 1055میگاواٹ تھی جو اگلے آٹھ ماہ میں 65 فیصد اضافے کے ساتھ 1735 میگاواٹ ہوگئی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے والے آف گرڈ صارفین کی تعداد نیٹ میٹرنگ کنکشن والے صارفین سے بہت زیادہ ہے۔
دنیا بھر میں شمسی توانائی اور ایسے ہی دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی صرف اس لیے نہیں کی جاتی کہ ان کی مدد سے سستی بجلی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی، پانی اور ہوا وغیرہ کے ذریعے جو بجلی پیدا کی جاتی ہے اس سے ماحول پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا جبکہ تیل اور کوئلے کی مدد سے بجلی حاصل کرتے ہوئے ایک طرف ایندھن کے بھاری نرخوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری جانب ماحول پر ایسے ناقابلِ تلافی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کی قیمت ہماری آئندہ نسلیں بھی ادا کریں گی۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اس صورتحال میں تو حکومت کو آگے بڑھ کر شمسی توانائی اور دیگر قدرتی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی زیادہ کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں، ہماری معیشت اس قابل نہیں ہے کہ ہم تیل کی قیمتوں کا بھاری بوجھ اٹھا کر بجلی پیدا کرسکیں۔ اس سب کے باوجود اگر حکومت کسی بھی وجہ سے قابلِ تجدید توانائی کی حوصلہ شکنی کرتی ہے تو اسے ملک اور عوام سے دشمنی تصور کیا جانا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...