ریاست وحکومت پاکستان کے کرتا دھرتا افراد کے رہن سہن کو دیکھیں تو ایک لمحہ کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہمارا ملک دیوالیہ کی دہلیز پر کھڑا ہے۔اس کے باوجود دیوالیہ دیوالیہ کی دہائی مچاتے ہوئے گزشتہ دو برس سے کبھی بجلی ،کبھی گیس اور کبھی پٹرول کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کے اعلان ہوئے جارہے ہیں۔ زندگی کا ہر دن مہنگا تر بنانے کے باوجود ہمارے حکمران نہایت حقارت سے مصر رہتے ہیں کہ پاکستانی جبلی اعتبار سے ’ٹیکس چور‘ ہیں۔ اپنی آمدنی کے مطابق اگر ہم حکومت کو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے کی عادت اپنا لیں تو حکومت کو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے بھکاریوں کی طرح رجوع کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
کوئی صاحب ہوش سے اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ہاں متمول طبقات کے چند مخصوص حصے حکومتی خزانے میں اپنی آمدنی کے حساب سے ٹیکس کی صورت میں کچھ بھی جمع کرانے کی عادی نہیں۔ اس ضمن میں جو طبقات سب سے نمایاں ہیں ان کے نام لکھنے کی ضرورت نہیں۔ متوسط طبقات میں سے پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ملازم پیشہ خواتین وحضرات لیکن اس تناظر میں ٹیکس نہیں بلکہ تاوان کے لیے اغوا ہوئے بے بس ولاچار افراد کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ان پر لاگو ہوا ٹیکس ہر مہینے دفتر والے انھیں تنخواہ دینے سے قبل ہی منہا کرلیتے ہیں۔ اس صاف شفاف اور باقاعدہ کٹوتی کے باوجود تنخواہ دارہر برس اپنی آمدنی اور خرچے پر مشتمل ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کا پابند بھی ہے اور اس ضمن میں حکومت نے جو طریقہ وضع کیا ہے اسے مجھ جیسا شخص سمجھنے کے قابل نہیں۔ ہر برس ٹیکس کے وکیل کی وساطت سے اپنا ریٹرن فائل کرتا ہوں۔
ظلم یہ بھی ہے کہ نام نہاد ’ٹیکس نیٹ‘ میں محصور ہوئے افراد سے ریاست ’مزید‘ نچوڑنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے دریافت کرنے کو بے قرار رہتی ہے۔اپنے کام سے کام رکھنے والے متوسط طبقات کی زندگی میں مزید پریشانیاں لانے کے لیے اب ایک اور ترکیب آزمانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔
چند روز قبل نیپرا نامی ادارے کا اجلاس ہوا۔ اس ادارے کا بنیادی فرض واختیار بجلی کی قیمتوں کو اس انداز میں متعین کرنا ہے کہ صارف خود کو بجلی پیدا کرنے والوں کے ہاتھوں مغوی ہوا محسوس نہ کرے۔اسی باعث اسے ’ریگولیٹر‘ پکارا جاتا ہے۔ فرض یہ بھی کرلیا گیا ہے کہ یہ ادارہ صارفین کے حقوق کو نگاہ میں ر کھتے ہوئے بجلی پیدا کرنے والوں اور بجلی کو ہمارے گھروں تک پہنچانے والے سرکاری اداروں پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ نیپرا کے جس اجلاس کا لیکن میں ذکر کررہا ہوں اس میں زیر بحث آئے نکات کو اردو کے دو اور انگریزی کے تین اخبارات میں نہایت غور سے پڑھا تو کئی گھنٹوں تک بے یقینی کے عالم میں رہنے کے بعد نہایت فکرمندی سے یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی کہ ملک کو خودکفیل بنانے کے بہانے حکومتی ادارے خلق خدا کی زندگی اجیرن بنانے کو تلے بیٹھے ہیں۔
دنیا بھر میں کئی برسوں سے بجلی پیدا کرنے کے سستے ذرائع ڈھونڈے جارہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں انسانوں کو قدرت کے تشکیل کردہ نظام میں مزید کھلواڑ روکنے کو مجبور کررہی ہیں۔اس تناظر میں پاکستان جیسے ممالک خوش نصیب ہیں جہاں سورج سال کے تقریباً ہر روز کم از کم دن کے وقت روشن وگرم رہتا ہے۔ سورج کی فراہم کردہ حدت سے بجلی پیدا کرنے کے لیے سولر انرجی دریافت ہوئی۔ مسلسل تحقیق کے بعد اب سورج سے بجلی پیدا کرنے کے تمام تر آلات دن بدن سستے اور بازار میں بآسانی دستیاب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجلی کے حصول کے اس ماحول دوست اور نسبتاً ارزاں ذریعہ کو حکومتی سرپرستی میں گھر گھر پہنچانے کی تراکیب سوچی جائیں۔ گزرے ہفتے مگر نیپرا کا جو اجلاس ہوا ہے وہاں نجی اداروں سے بجلی خرید کر میرے اور آپ کے گھروں تک پہنچانے والے ادارے کے نمائندوں نے دُہائی یہ مچائی ہے کہ گھروں میں نصب سولر انرجی کے نظام کی بدولت ملک بھر میں بجلی کی طلب میں ’نمایاں‘ کمی ہورہی ہے۔ حکومت اس کمی کو برداشت نہیں کر پائے گی کیونکہ وہ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں سے ان کی پیدا کردہ بجلی خریدنے کی پابند ہے۔ حکومت کی خریدی بجلی اگر عام صارف کو بیچی نہ گئی تو بجلی پیدا کرنے والوں کو ادا کرنے والا گردشی قرضہ آسمان کو چھونے لگے گا۔
قدرت کی فیاضی سے سولر انرجی کی برکتوں سے دریافت ہوئی ٹیکنالوجی کے فروغ کی حوصلہ شکنی کے لیے لہٰذا تجویز یہ زیرغور ہے کہ جن گھروں نے اپنی چھتوں پر سولر پینل لگارکھے ہیں ان سے ہر برس کم از کم 25ہزار روپے بطور ٹیکس وصول کیا جائے۔ اس کے علاوہ تجویز یہ بھی ہے کہ فی الوقت حکومت سولر انرجی کے واپڈا نیشنل گرڈ کے ساتھ منسلک نظام کے ذریعے ہر گھر سے جو بجلی خریدتی ہے اس کے ایک یونٹ کی قیمت ان دنوں کے نرخوں سے آدھی کردی جائے۔غالباً اکیس (21) روپوں سے اسے گیارہ (11) روپے فی یونٹ لایا جائے۔
یاد رہے کہ شام پانچ بجے کے بعد واپڈا حکام ہمارے گھروں میں آئی بجلی کو ’پیک آورز(Peak Hours)‘میں فراہم کردہ بجلی شمار کرتے ہوئے اس کا نرخ کم از کم دو گنا کردیتے ہیں۔ فرض کریں میں نے اگر اپنے گھر کی چھت پر سولر نظام نصب کررکھا ہے تو اس کی بدولت دن کے اوقات میں جو بجلی پیدا ہوتی ہے اس کے ایک یونٹ کا واپڈا بجلی پیدا کرنے والے کار خانوں سے خریدی بجلی کے ایک یونٹ سے تقریباً آدھی قیمت پر’خریدتا‘ ہے۔ سورج ڈھلنے کے بعد مگر میرے گھر کو واپڈا کی فراہم کردہ بجلی کے نرخ دوگنا ہوجاتے ہیں۔ حکومت کا نظربظاہر یہ ارادہ ہے کہ گھروں پر نصب شدہ سولر انرجی کے نظام کی بدولت پیدا ہوئی بجلی کو اب مضحکہ خیز حد تک سستے داموں خریدا جائے تاکہ لوگوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کے حصول کے رحجان کی حوصلہ شکنی ہو۔ یہ ہوگیا تو پیک آورز کے لیے طے ہوئی قیمت ادا کرتے ہوئے صارف کے گھر میں لگا سولر انرجی کا نظام معاشی اعتبار سے کسی کام کا نہیں رہے گا۔
نیپرا کے اجلاس میں زیر بحث آئی ان تجاویز کر بار ہار غور سے پڑھنے کے بعد میرا سرگھوم گیا۔ دنیا بھر کی حکومتیں جن میں خالصتاً سرمایہ دارانہ نظام پراندھے اعتقاد کی حامل امریکی حکومت بھی شامل ہے ، شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے نظام کی حوصلہ افزائی کے لیے صارفین کو پرکشش رعایتیں فراہم کررہی ہیں۔ ہمارا عزیز ترین دوست ملک چین اس تناظر میں سستے ترین سولر پینل بنا کر اسے دنیا کے غریب ممالک میں سستے داموں فروخت کرتے ہوئے خود کو ’عوام دوست‘ ملک ثابت کررہا ہے۔ پاکستان کے بے حس وسفاک حکمران مگر سولر انرجی کی حوصلہ شکنی کو مرے جارہے ہیں۔
سولر انرجی سے بجلی حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی
Apr 29, 2024