عتیق انور راجہ
ڈاکٹر صغرا صدف کی صدارت میں دھرتی کی محبت سے سرشار ڈائریکٹر میڈیا یونیورسٹی آف گجرات شیح عبد الرشید کی دو تصانیف ’مرقع گجرات اور گجرات میں عربی ادب کی روایت‘ کی تقریب یونیورسٹی آف گجرات میں کی قائد اعظم لائبریری کے ڈاکٹر ذکی الزمان چیمہ اور ریڈرز کلب کی چیف کوارڈینیٹر ڈاکٹر رخسانہ ریاض کی سرپرستی میںمنعقد ہوئی۔کتاب اور صاحب کتاب پر گفتگو کے لیے راقم کے علاوہ ڈی جی پنجاب لائبریریز کاشف منظور،پرنسپل گورنمنٹ کالج جلال پور جٹاں کلیم احسان بٹ،پیر ضیا الحق نقشبندی، ڈاکٹر امجد طفیل اورسی ای او بک کارنر جہلم گگن شاہد مدعو تھے۔ تقریب کی رونق کو دوبالا کرنے والوں میں خواجہ فرید یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلمان طاہر، ڈین فیکلٹی ڈاکٹر فیصل مرزا، ڈاکٹر غلام عباس، ڈاکٹر فضیل قیصرانی، ڈاکٹر محمد یوسف، اساتذہ و طلبہ کے ساتھ ساتھ گجرات کے ادیب و محققین رائے فصیح اللہ جرال، مترجم سکندر ریاض چوہان، احسان فیصل کنجاہی، دانشور نعمان احمد اوشو، نومی چوہدری، صدیق مجاہد، شاعر لیاقت گڈگور نے شرکت کی۔کہتے ہیں تاریخ تبھی زندہ رہتی ہے جب لکھاری ، گزرے ادوار کی تاریخ کوپڑھے ،سمجھے ،پرکھے اور پھر اپنے انداز میںکتاب کی صورت میں سامنے لانے کی کوشش کرے۔بادشاہوں کی زندگیوں پر لکھنے والوں کی تعداد ہر دور میں بہت زیادہ رہتی ہے ۔لیکن کچھ ایسے قلم کار بھی ہوتے ہیں جو رنگ و نسل اور مذہب کا فرق کیے بغیر اپنے علاقے کے گمشدہ ہیروز کی کھوج کا مشکل مگر اہم کام قلمبند کرنے کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ممتاز دانشور، نقاد، کالم نگار اور محقق شیخ عبدالرشید نے مرقع گجرات اور گجرات میں عربی ادب کی روایت لکھ کے گجرات کی ہر لحاظ سے تاریخی اہمیت اجاگر کی ہے۔شیخ عبدالرشید برجستہ جملوں،معلومات افروز گفتگو اور دبنگ انداز بیاں ، فنِ تقریر،علمی و ادبی محافل اور نظامت کے حوالے سے ضلع گجرات میں خاص پہچان رکھتے ہیں۔
کتاب کے ورق پلٹتے ہوئے معلوم ہو تا ہے کہ!460 قبل مسیح میں راجہ بچن پال نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔پھر جب سیالکوٹ کی رانی گوجراں نے اس علاقے کو فتح کیا تو اس کا نام ’’گوجر نگر‘‘ رکھا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ گوجر نگر سے نام ’’گجرات‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔یعنی گجرات کی تاریخ قبل مسیح سے پہلے کی ہے۔ سکندر اعظم اورراجہ پورس کی لڑائی سے انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی تک شہر کی بجائے گجرات کے قصبے اور گاوں تاریخی معرکوں کے حوالوں سے بھرے پڑے ہیں۔دریائے جہلم اوردریائے ستلج کے درمیان واقع نہایت خوبصورت اور زرخیز علاقے کا نام ضلع گجرات ہے۔ اس کی چار تحصیلیں کھاریاں، گجرات، سرائے عالمگیر اور جلال پور جٹاں ہیں۔جہاں صدیوںسے راجپوت،گوجر، میر، آرائیں، جٹ اور وڑائچ قوم کے لوگ آبادہیں۔تقسیم ہندوستاں کے بعدگجرات کے نوجوانوں کی اکثریت فوج میں بھرتی ہونے کو ترجیع دیتی رہی ہے اس کے بعد بہتر روز گار کے لیے ضلع کے لوگ یورپ،امریکہ اور عرب ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ نشان حیدر کا اعزاز حاصل کرنے والوں میںمیجر راجہ عزیز بھٹی شہید، میجر شبیر شہید، میجر اکرم شہید کاتعلق گجرات سے تھا،پھر سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف، مشہور لوک گلوکارعالم لوہار، عارف لوہار، عنایت حسین بھٹی، صبیحہ خانم،رفیع پیر زادہ،سیاستدانوں میں چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری فضل الٰہی، سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری مختار احمد، قمرالزمان کائرہ،چوہدری عابد رضا کوٹلہ، سہیل وڑائچ،قاسم علی شاہ،ڈاکٹر صغرا صدف،ڈاکٹر پرویز چوہدری کا تعلق بھی ضلع گجرات سے ہے۔یہ کتاب نہ صرف عام قاری کے لیے اہم ہے بلکہ اس کی اشاعت سے، گجرات کے حوالے سے کام کرنے والے محققین کوبہت سا مواد مل سکتا ہے۔’’مرقع گجرات‘‘ کا بنیادی موضوع اگرچہ ضلع گجرات کے ماضی کی نامور شخصیات ہیں لیکن ان شخصیات کے توسط سے مصنف ہمیں کئی مقامات پر گجرات کے پرانے تہذیبی، ثقافتی اور ادبی منظر نامے سے بھی متعارف کرواتا ہے۔
گجرات میں عربی ادب کی روایت میں چالیس مقامی مصنفین اور شعرا کا ذکر ہے ۔قدیم زبانوں،تہذیبوں،ثقافتوں اور علوم و فنون کو کمال تک پہنچانے میں عربی زبان کا کلیدی کردار رہا ہے ۔تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ حوادث زمانہ نے دنیا کی کئی زبانوں کو گوشہ گمنامی میں دھکیل دیا لیکن عربی زبان اپنے جملہ ادبی سرمائے کے ساتھ ہر دور میں موجود رہی۔گجرات میں عربی شعر و ادب کا جائزہ لیں تو یہ نقطہ سمجھ آتا ہے کہ اس علاقے میں عربی سے زیادہ مسلمانوں نے فارسی زبان میں عبور حاصل کیا۔پڑوسی ملک ایران،افغانستان اور حکمرانوں کی زبان ہونے کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں نے فارسی کو آسان سمجھا اور اپنایا۔مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے کے باوجود عربی غیر ملکی زبان ہی رہی۔یہاں یہ حقیقت بھی واضع ہوجاتی ہے کہ مادری یعنی دھرتی کی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان پر عبور حاصل کرنا بہت مشکل امر ہے۔عباسی خلفا کے دور میں عالم عرب پر دھن برس رہا تھا۔شعرا ء حکمرانوں کی مدح خوانی میں مصروف تھے جوشاعر خلیفہ کی جتنی تعریف لکھتا اس کے حصے میں اتنا ہی زیادہ سیم و زر آتا۔یہی وجہ ہے کہ عرب کا کوئی نمائندہ شاعر ہندوستاں نہ آیا۔اس لیے گجرات کے عربی شعر و ادب کو عجمیوں کا ادب کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔لیکن اس کے باوجود گجرات میں اہل قلم نے عربی زبان میں لکھا ہے ۔
مرقع گجرات اور گجرات میں عربی ادب کی روایت پڑھتے ہوئے بار باریہ احساس ہوتا ہے کہ شیخ عبد الرشید نہ صرف وسیع مطالعہ رکھتے ہیں بلکہ وہ کتاب سے پڑھے واقعات پر اندھا دھند اعتماد کرنے کی بجائے ماضی کی گمشدہ کڑیوں کو کھوجنے کے لیے گجرات کے دیہاتوں،قصبوں اور شہروں کے چکر لگاتے رہے ہیں۔ تاریخ و سیاست پر ان کا ذہن خوب چلتا ہے اور انہیںکتابوں میں پڑھے پر یقین کرنے کی بجائے مشاہیر کے کردار کو نئے سرے سے کریدنے،پرکھنے اور حالات و واقعات کے حوالے سے معلومات جمع کرکے تاریخ کو دریافت کرنے کے لیے اکساتا ہے ۔ لکھتے وقت وہ رنگ و نسل اور مذہب کا فرق کیے بغیر گجرات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں،سکھوں اورہندووں کی سیاسی ،سماجی ،صحافتی اور فنی خدمات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔