بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
احمد راہی نے کہا اور کیا خوب کہا یہ خیالات آب زر سے لکھنے کے مترادف ہیں
یاد کرتا ہے زمانہ ان انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
70 برس قبل آزادی کا تاج اپنے ماتھے پر سجانے والے ویت نام پر طاقت اور غرور کے زعم میں مبتلا امریکہ نے جنگ مسلط کر دی۔ آزادی کے 29 برس بعد ویتی قوم کو بارود کی بارش سے تباہ حال کردیا۔ لیگ آف نیشن کی کوششوں اور ترقی یافتہ ممالک کی دو عملی کا شکار ویت نام میں مسلسل بربادی کی داستانیں رقم کی جاتی رہیں۔ انصاف پسند ، جمہوریت کے علمبردار اور انسانیت کا درد رکھنے والی ریاستیں انصاف کا پرچم بلند کرتیں تو امریکہ کو جارحیت اور جنگ کی جرات نہ ہوتی؟ اللہ اللہ کرکے جنگ بندی کا بگل بجا۔ 2024 کے غزہ (فلسطین) کی طرح ویت نام کا کوئی شہر' کوئی قصبہ اور کوئی گائوں ایسا نہ تھا جہاں عوامی اور معاشرتی زندگی کا سورج طلوع ہوسکے۔کمال سے ویت نام کے لوگوں پر، آفرین ہے نوجوانوں کے جذبہ حبالوطنی پر ، داد ہے بزرگوں اور خواتین کی ہمت اور دلیری پر جنہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جنگل میں منگل' صحرامیں فصل اور بنجر زمین کو آباد کرنے کے جلوے پورے ویت نام میں بار بار دیکھے گئے۔ خوف اور بے یقینی سے نجات پاکر اہل ویت نام نے تعمیر نو سے دنیا کو حیران کر دیا۔ آج ویت نام کے نونہال اور طلباء بڑے فخر و اعجاز سے بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے سپر پاور کے ساتھ ساتھ غربت و پسماندگی کو شکست دی۔
ویت نام جنگ اور اس کے بعد کے حالات کا سبق یہی ہے کہ بہادر اقوام نامساعد حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتی ہیں، تعمیر نو سے ثابت کرتی ہیں کہ وہ زندہ اور جاوید قوم ہیں۔کاش چوبیس کروڑ لوگ بھی پاکستانی قوم بن جائیں۔ یہ خواب 11 ستمبر 1948 سے تشنہ تکمیل ہے یہی وہ دن تھا جب قوم کے محبوب قائد( محمد علی جناح) جنت مکیں ہوئے…بات ہورہی تھے ویت نام اور بہادر قوم کی !!ویتنام 1954 میں فرانس سے آزاد ہوا۔ آزادی کے فوری بعد ہی بیسویں صدی میں طویل ترین جنگ سے گذرا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ویتنام جنگ آزادی کے فوری بعد ہی شروع ہو گئی۔ یہ جنگ بنیادی طور پر کیمونسٹ بلاک اور امریکہ کے درمیان تھی اور جنگ 1975 میں امریکہ کی شکست پر ختم ہوئی۔جنگ کے بارے پوری دنیا میں بہت کچھ لکھا گیا اور اس جنگ کے بارے میں ہالی ووڈ نے تھوک کے حساب سے فلمیں بھی بنائی جنہیں دیکھ دیکھ کر ہم بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گئے ان فلموں کی وجہ سے اوائل عمری میں ہی ویتنام کا نام ذہن میں بیٹھ گیا تھا کہ یہ وہ ملک ہے جس نے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں ہم چاہنے کے باوجود نہیں جا سکے۔ جانے کی خواہش ابھی باقی تھی کہ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھ کر خواہش میں مزید تیزی آ گئی ویتنام 1976 میں کیمونسٹ پارٹی آف ویتنام کے تحت ایک وحدتی سوشلسٹ ملک کے طور پر سامنے آیا مگر طویل ترین جنگوں کی وجہ سے غیر موثر معاشی منصوبہ بندی اور مغرب کی طرف سے تجارتی پابندیوں نے اس ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا اس صورتحال میں 1986 میں کیمونسٹ پارٹی آف ویتنام نے چینی معاشی اصلاحات کو مدنظر رکھ کر ویتنام کی معاشی اصلاحات شروع کیں جس نے ویتنام کو مارکیٹ پر مبنی معیشت میں تبدیل کر دیا ان اصلاحات کی وجہ سے ویتنام کو عالمی معیشت اور سیاست میں مقام بنانے کا موقع مل گیا اسطرح کم آمدنی والی معیشت کے ساتھ ایک ترقی پذیر ملک ویتنام 21ویں صدی میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت میں سے ایک بن گیا یہ ساری بیگ گراونڈ لکھنے کا مقصد وہ ایک چھوٹی سی خبر تھی جو ہم نے پاکستانی اخبارات میں چند دن پہلے پڑھی تھی۔ خبر کے مطابق ایک ارب پتی کاروباری 67 سالہ خاتون کو فراڈ کرنے کی وجہ سے عدالت نے سزائے موت سنا دی ویتنام میں ڈرگز ٹریفکنگ ، قتل ، ریپ اور وائٹ کالر کرائمز مثلا رشوت اور فراڈ کے کیسوں کی سزا موت ہے۔ ویتنام ڈرگز کے بارے میں پوری دنیا میں سخت ترین قوانین کی وجہ سے مشہور ہے مگر فراڈ کے کیسوں میں بھی موت کے علاوہ اور کوئی سزا نہیں ہے۔اس خاتون نے کچھ بینکرز کو ساتھ ملا کر فراڈ کیا تھا جن کی تعداد تقریبا 60 کے لگ بھگ ہے اور ان تمام افراد کو بھی مختلف سزائیں سنائی جا چکی ہیں اسی طرح بہت پہلے چائینہ کے بارے بھی یہ پڑھنے کو ملا کہ رشوت لینے پر وزراء تک کو سزائے موت دے دی گئی یہ وہ ملک ہیں جو نہ کسی دین کو مانتے ہیں مگر قوانین سارے اسلامی اپنائے ہوئے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی سختی سے کرتے ہیں جبکہ ہمیں اسلامی قوانین اپناتے ہوئے شرم آتی ہے اور اگر کوئی پارٹی اسلامی قوانین کی بات کرتی ہے تو مغرب کو ہیومن رائٹس یاد آ جاتے ہیں جبکہ مغرب کے پریشر میں آ کر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سب سے زیادہ ہیومن رائٹس کا خیال رکھنے والا تو ہمارا اپنا پیارا دین (اسلام) ہے۔ ابھی لکھنے کو بہت کچھ باقی ہے مگر ہم نے جب یہ خبر پڑھی تو دل فوری طور پر چاہا کہ ہم ویتنام کے سسٹم اس کے قانون اور قانون کے مطابق سزا سنانے والوں کو دونوں ہاتھوں سے سلام کریں۔ یہ میراث تو مسلمانوں کی تھی جو آج بھی ماضی میں عدل و انصاف کے قصے سنا سنا کر نہیں تھکتے مگر دور جدید میں اغیار نے ان قوانین کو اپنا کر کس تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر لیں۔ ہم چاہتے تو تھے کہ اس غیر اسلامی نظام کے ساتھ اپنے 75 سال سے اسلامی نظام کا موازنہ کرتے مگر شرم آتی ہے کہ کس کا کس سے موازنہ کریں جبکہ ہمیں وہ لوگ جنہیں ہم بہت حقارت سے کافر کہتے ہیں ہمارے سے زیادہ ایماندار اور اپنے ملک کے ساتھ وفادار نظر آتے ہیں!!