قوموں میں نظام عدل کی اہمیت و افادیت


 خیالات …شہزاد منیر احمد ریٹائرڈگروپ کیپٹن 
shehzadmuneerahmad@gmail.com

کائنات اللّٰہ کی ملکیت ھے،  اس عالمی ریاست کا مالک و ناظم اللّٰہ وحدہْ لا شریک ھے۔ اللّٰہ قادر و عادل نے اپنی ہر تخلیق کو اس طرح محکم اصولوں اور عدل کی متوازن اور مضبوط سنہری تاروں میں پرو کر کام پر لگا رکھا ہے کہ تعمیراتی فنون کے ماہرینِ بھی حیران اور معترف ہیں کہ کائنات کی کسی چیز میں  کمی اور  بہتری کی کہیں گنجائش نہیں ھے۔ اللّٰہ نے زمین پر اپنے خلیفہ ،انسان اشرف المخلوقات، جسے اللّٰہ نے علم دیا اور وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ کو بھی زمین پر مقتدر بنا کر بندوں پر ایسے ہی معتبر نظام حکومت کے قائم کرنے کا حکم دے رکھا ھے۔  ریاست کا وجود اس لیے عمل میں آتا  ھے کہ  وہ اپنے عوام کی جان و مال ، عزت و آبرو کو محفوظ بنائے ، ملک میں  امن و امان قائم رکھے اور روزگار  کے ازاد  مواقع پیدا کرے۔ جہاں کہیں شریر اور فسادیوں کی طرف سے ریاستی نظام میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش نظر  ائے قومی نظریہ عدل و انصاف کے مطابق اس کا  قلع قمع کیا جائے ۔عدل و انصاف کا سیدھا اور سادہ  معنی یہ کہ افراد کے ساتھ ہر سطح پر باوقار برابری کا سلوک روا رکھا جائے۔ چونکہ قوانین و ضوابط ہر ریاست کے اپنے نظریہ ریاست سے میل کھاتے بنائے جاتے ہیں ۔اس لیے عدل و انصاف کا معیار بھی مشروط ہو جاتا ھے۔ مثلاً  متحدہ محکوم ہندوستان سے آزاد ریاست پاکستان کا مطالبہ آل انڈیا کانگریس کے حمایتی ہندوستان کے دو جید علماء￿  دین ، مولانا احمد حسین مدنی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے قریب غیر منصفانہ تھا۔جب کے آل انڈیا مسلم لیگ کے علامہ محمد اقبال ، محمد علی جناح کے حمایتی  مولانا  شبیر عثمانی ، مولانا ظفر عثمانی  پیر سید جماعت علی شاہ  پیر اف سیال شریف اور دیگر علمائے اسلام کے قریب کروڑوں  مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے تابع رکھنا انتہائی ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ تھا۔ دائیں بازوں کے سیاستدان (. قدامت پسند) ریاست کی ترقی ،رائج قوانین کے تابع رکھنے کے قائل ہوتے ہیں کب کہ بائیں بازو کے سیاستدان ( انقلابی اور ترقی پسند) مروجہ نظام کو بدل کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اپ کو یاد ہوگا کہ دایاں بازو اور بایاں بازو کی اصطلاح 1779 میں فرانس کے بادشاہ نے استعمال کی تھی جب بادشاہ کے حمایتی درباری کانفرنس کی مستطیل میز پر داہنی طرف بیٹھتے تھے۔ اور انقلابی بائیں جانب اجلاس میں بیٹھتے تھے۔ یہ اہم ذمہ داری نبھانے کے لیے مضبوط حکومت تشکیل دی جاتی ھے۔ مضبوط حکومت سے مراد اہل علم، مدبر اور عاقبت اندیش افراد کی جماعت ھے جو قومی  ضرورتوں اور مفادات کو سامنے رکھ کر تلخ و شیریں  فیصلے کرتی ھے اور ریاست پنپتی ہے۔
ریاست کے عوام میں کئی طرح کے گروہ  نسلی ، لسانی اور  تہذیبی پس منظر کی وجہ سے فکر و عمل میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ انہیں راہ راست پر متحد رکھنے کے لیے متحدہ دستور ( آئین) تشکیل دیا جاتا ھے۔ اس دستور کا مقصد اعلیٰ ریاست کے ہر شہری کا  ہر سطح  پر امور مملکت میں بالخصوص  قانونی اعتبار سے برابری کا درجہ تسلیم کیا جاتا ھے۔ ریاست کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو وہ اپنی حیثیت میں خود کفیل اور فیصلہ سازی میں آزاد ہوتی ھے۔  قوموں کی تعمیر وترقی میں شفاف نظام عدل کی ااہمیت و افادیت  صدیوں سے معاشروں میں قائم چلی آ رہی ھے۔  2160 قبل مسیح کا دور نمرود  ہو یا 1280 قبل مسیح کا زمانہ فرعون ہو  سب ریاستی  قوانین کے تابع اپنے ملزمان کو سزا دیتی تھیں۔ جدید نظریاتی ریاست یونان میں بھی پانچویں قبل مسیح صدی میں سقراط کو عدلیہ نے سزائے موت دی ۔  دور جدید کے برطانوی وزیراعظم  چرچل کا عدلیہ کے بارے  وہ گھسا پٹا قول   آپ کو بھی  یاد ہوگا کہ  1944 میں برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم میں اچھی خاصی ہزیمت اٹھاتے شکست نظر آ  رہی تھی تو ونسٹن چرچل نے پوچھا تھا کہ کیا ہماری عدالتیں فنکشنل ہیں۔ جواب ہاں میں پا کر اس نے جواب دیا تھا  اگر عدالتیں عدل وانصاف پر قائم فیصلے دے رہی ہیں ،پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔  چرچل نے ایسا برطانوی عدل و انصاف کی تاریخی روائتوں کی پاسداری کو سامنے رکھ کر  کہا تھا۔ ۔ 1740  میں برطانوی حکومت نے اپنا پانچ بحری جہازوں پر مشتمل اسکواڈرن اسپین کے اس جہاز کی تلاش میں بھیجا تھا جس کے بارے مبینہ طور پر مال و دولت اور بہت بڑا خزانہ چھپایا گیا تھا۔  برطانوی بحری بیڑے کے ایک جہاز WAGER کو فلپائن کے ساحل کے قریب حادثہ پیش آ گیا ۔ جہاز کا کپتان DAVID CHEAP ظالمانہ حد تک سخت مزاج۔افیسر تھا ۔اس کے فیصلوں کی وجہ سے جہاز پر موجود عملے نے بغاوت کر دی ۔بتایا جاتا ھے کہ 81 ملاحوں میں سے 3000 میل کا سمندری سفر طے کرکے صرف 29 افراد بچ کر ساحل پر پہنچے تھے۔ جہاز کے کپتان  DAVID CHEAP کا کورٹ مارشل ہوا اور اسے سزا بھی دی گئی تھی۔ اس واقعہ پر  ڈیوڈ گرن کی SHIPS MUTINY  نے کافی شہرت پائی ۔ اس سمندری حادثے اور واقعہ پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔
   برطانوی نظام عدل وانصاف کا ایک اور واقعہ بھی تاریخ عالم کی کتابوں میں محفوظ ھے ۔   برطانوی تجارتی ادارے  ، ایسٹ انڈیا کمپنی کا کلرک کلائیو جب ایسٹ بنگال میں تجارتی قدم جمانے کے بعد دو نوابوں، میر جعفر و صادق کو ساتھ ملا کر ٹیپو سلطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوا اور پھر پورے ہندوستان پر برطانوی حکومت کا راج قائم ہوگیا تو وہ لارڈ کلائیو بنا۔ ہندوستان سے  لارڈ کلائیو نے بے شمار دولت لوٹی سمیٹی اور برطانیہ میں جائیدادوں کا انبار لگا دیا ۔   لارڈ کلائیو جب واپس برطانیہ بلوایا گیا تو  قانون حرکت میں آگیا ۔اس پر ہندوستان سے بد دیانتی سے مال و دولت اکٹھا کرنے اور برطانیہ میں ناجائز دولت سے جائدادیں خریدنے پر مقدمہ چلایا گیا۔ وہ جیل میں تھا کہ اپنا گلا کاٹ کر  خود کشی کر کے مر گیا۔ پاکستان کے نظام عدل پر فیض احمد فیض کے کہے الفاظ یاد آگئے۔ لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔
  میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
  میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوگے

ای پیپر دی نیشن