پاکستان پیپلز پارٹی کے دسویں سنئیر رہنما زوالفقارمرزا جو اپنی ہی جماعت کے اقتدار کے دنوں میں حکومتی پالیسویں سے اختلاف کے باعث اقتدار سے الگ ہوئے۔

صدر مملکت آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور سندھ کے حکومتی معاملات میں فریال تالپور کے بعد دوسری طاقتور ترین شخصیت مانے جانے والے ڈاکڑ زوالفقار مرزا بل آخر اپنی ہی حکومت کی سیاسی غلام گردشوں میں گم ہوگئے۔ ڈاکڑ زوالفقار مرزا سے پہلے پیپلز پارٹی کے جن رہنمائوں کو زرداری حکومت کی پالیسویں کے باعث اقتدار اور پارٹی سے دور ہونا پڑا ان میں بےنظیر بھٹو کے قتل کے فوری بعد ان کی پرنسپل سیکرٹری ناہید خان اور سینٹر صفدر عباسی تھے۔ پی۔پی میں بےنظیر بھٹو کے زمانہ اقتدار میں طاقتور ترین سمجھے جانے والے دونوں رہنمائوں نے بےنظیر بھٹو کے قتل پر وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن عدلیہ بحالی تحریک میں مرکزی کردار ادا کرنے کے باعث پارٹی قیادت سے ناصرف دور ہوگئے بلکہ ایک موقع پر انکی بحثیت ممبر سنٹرل ایگزکیٹو کمیٹی رکنیت بھی منسوخ کردی گئی۔ سابق وفاقی وزیراطلاعات شریں رحمان کو پی پی حکومت کے ساتھ لڑائی پر میڈیا کا ساتھ دینے پر نہ صرف وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ وہ پارٹی قیادت سے بھی دور گئیں۔ اسی طرح سینٹر انور بیگ بھی حکومت پر اعتراضات کے باعث پارٹی کی بنیادی رکنیت سے محروم ہوگئے۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو رینمڈ ڈیوس کے معاملے پر حکومت مخالف بیانات اور پالیسویں کے باعث وزارت اور پارٹی قیادت کے قرب سے محروم ہونا پڑا۔ وزیر مملکت نبیل گبول کو لیاری میں رحمن ڈکیت گینگ کے خلاف ہونے والے آپریشن کے باعث حکومت مخالف بیانات دینے پر وزارت اور پارٹی عہدے دونوں سے تہی دامن ہونا پڑا۔وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی کے چھوٹے بھائی سینٹر لشکری رئیسانی بلوچستان میں اپنی ہی حکومت کے خلاف دئیے جانے والے بیانات کے باعث پارٹی قیادت کی نظر میں گرگئے ۔پیپلز پارٹی کے ان مرکزی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں مقامی رہنمائوں کی بڑی تعداد کو گذشتہ ساڑھے تین سال کے دوران زرداری حکومت سے اختلافات کے باعث سائیڈ لائین ہونا پڑا۔

ای پیپر دی نیشن