اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ مذاکرات کے دو دور مکمل کر لئے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے تمام سفارتی اور فوجی حلقوں نے مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے کہ دو برادر ہمسایہ اسلامی ریاستوں کی قیادت نے بالآخر زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے نائن الیون کے واقعہ کے بعد 12 سال سے آگ اور خون کی لپیٹ میں آئے ہوئے اس خطہ میں امن بحال کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس طویل عرصہ کے دوران علاقہ جنگ و جدال دہشت گردی اور بدامنی کا شکار چلا آرہا ہے امریکہ بہادر نے نیٹو ممالک کی افواج کے اشتراک سے سرمایے اور اسلحے کا بے دریغ استعمال کرکے القاعدہ اور طالبان کو شکست دینے کے لئے ہزاروں معصوم شہریوں کو ہلاک اور لاکھوں کو زخمی اور بے گھر کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس پرائی جنگ نے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ بارہ سال گزرنے کے باوجود آج بھی پشاور سے لے کر کوئٹہ اور کراچی تک ملک دہشت گردی کی زد میں ہے لوگوں کا چین غارت ہو چکا ہے قومی معاشی ترقی کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا ہے۔ اب جبکہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اگلے برس 2014ء تک افغانستان سے فوجی انخلاء کا پروگرام تشکیل دے چکے ہیں اس خطے میں امن کے تمام سٹیک ہولڈرز‘ افغانستان پاکستان بھارت ایران سعودی عرب چین اور وسط ایشیائی ریاستیں اختتامی کھیل کی بساط پر شطرنج کے اپنے مہروں کو بڑی احتیاط سے کھیل رہے ہیں۔ حامد کرزئی کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امریکہ اور افغان صدر ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے تعاون کے خواہش مند ہیں۔ اسلام آباد میں منعقدہ مذاکرات کے پہلے دور میں حامد کرزئی نے کہا امید ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان کی مدد کرے گا۔ انتہا پسند ہمارے مشترکہ دشمن ہیں جو دونوں ممالک کے عوام اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کارروائیوں پر غور کرنا چاہئے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں کرزئی کے خطاب کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ 2014ء افغانستان کے لئے مشکل سال ہے پاکستان نیٹو فوج کے پرامن انخلاء کے لئے افغانستان سے مکمل تعاون کرے گا۔ ہم افغانستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت قیام امن اور استحکام امن کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے۔ پاکستان پرامن متحدہ اور خوشحال افغانستان کا خواہشمند ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کو تقویت دینا چاہتا ہے۔ میاں نواز شریف نے مزید نے کہا کہ افغانستان نہ صرف پاکستان کا پڑوسی ملک ہے بلکہ دوست بھی ہے۔ افغانستان میں امن مفاہمت اور مذاکرات کا عمل خود افغان قیادت سنبھالے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خزانہ نے مختلف منصوبوں پر بات چیت کی ہے جس سے اقتصادی ترقی ہو گی اور علاقے کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان راہداری تجارت کے سمجھوتے پر بھی عملدرآمد ہو گا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستانی وزیراعظم کے تعمیری خیالات کا مثبت جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آکر بہت خوشی ہوئی ہے۔ پاکستان سے سکیورٹی سمیت کئی امور پر امیدیں وابستہ ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ دونوں ممالک کے شہریوں حکومتوں اور سکیورٹی فورسز کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہم نے مذاکرات کے دوران مشترکہ چیلنجز پر تبادل خیال دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں جاری رکھنے اور دونوں ممالک کے درمیان ریلوے لائن منصوبے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ افغان صدر نے اسلام آباد میں منعقدہ مذاکرات کے پہلے دور کو کامیاب بنانے اور طالبان کے مسئلے پر تمام زاویوں سے غور و خوض کرنے کے لئے پاکستان میں اپنے قیام میں ایک روز کا اضافہ کرکے مری میں مذاکرات کا دوسرا دور منعقد کیا جس میں حامد کرزئی اور میاں محمد نواز شریف نے افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے حکمت عملی کا جائزہ لیا۔ حالیہ پاک افغان مذاکرات کا یہ پہلو بھی بڑا خوشگوار ہے کہ دونوں ممالک نے چند مشترکہ اقتصادی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ بھی کیا ہے ان میں دریائے کنڑ پر واقع ایک بجلی گھر پشاور کابل موٹروے اور پشاور جلال آباد ریلوے لائن کے منصوبے نمایاں ہیں۔ افغان صدر نے کئی افغان قیدی رہنماؤں مثلاً عبدالغنی ملا برادر کی رہائی کا مطالبہ بھی دہرایا ہے۔ پاکستانی قیادت نے حامد کرزئی کو یہ بات یاد دلائی ہے کہ دہشت گردی کے اکثر واقعات کو افغانستان سے ہی کنٹرول کیا جاتا ہے علاوہ ازیں افغانستان کی سرزمین پر واقع بھارتی قونصل خانے پاکستان مخالف عناصر کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ تاہم حالیہ پاک افغان مذاکرات مجموعی طور پر کامیاب رہے ہیں کیونکہ ان سے 18 ماہ بعد سفارتی برف کو پگھلانے اور دونوں ممالک کے اہداف کو واضح کرنے میں مدد ملی ہے۔ اب اس خوشگوار ماحول میں دونوں ممالک کو تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے میں آسانی ہو گی۔