ہمارے ایک بزرگ دوست اور سینئر صحافی نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں یوم آزاد ی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بڑی جرأت سے قائداعظم کا نظریۂ پاکستان پیش کیا ہے۔ قائداعظم کا نظریہ‘ پاکستان پیش کرنے پر نواز شریف کی جرأت مندی اور ہمت کی داد دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ نواز شریف نے کالم نویس کی پسند کے مطابق ’’نظریۂ پاکستان‘‘ پیش کیا ہے۔ ایک مخصوص طبقے کے نزدیک نظریۂ پاکستان صرف وہ ہے جو قائداعظم نے اپنی 11اگست 1947ء کی تقریر میں بیان فرمایا تھا۔ اپنی مرضی کا مطلب نکالنا الگ بات ہے لیکن قائداعظم نے اپنی پوری زندگی میں اسلامی نظام حیات کو پاکستان میں نافذ کرنے کیخلاف اشارہ تک نہیں کیا۔ اسکے برعکس قائداعظم نے ایک سو مرتبہ سے بھی زیادہ تعداد میں اپنے بیانات اور تقاریر میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بات کی ہے۔یہ درست ہے کہ قائداعظم نے اپنی 11اگست1947ء کی تقریر میں یہ فرمایا تھا کہ تمہیں اس امر کی مکمل آزادی ہوگی کہ تم اپنے مندروں میں جائو یا مسجدوں میں یا اپنی کسی اور عبادگاہ میں۔تمہاری ذات یا مذہب کچھ بھی ہو اس کا امور سے کچھ تعلق نہیں ہوگا۔قائداعظم نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق بلا امتیاز مذہب برابر ہوں گے۔ قائداعظم کا غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دلانا کہ وہ پاکستان میں ہر طرح سے محفوظ ہونگے اور ان سے مذہب کی بنیاد پرکوئی غیر منصفانہ سلوک نہیں ہوگا،ایک قابل تحسین بات ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قائداعظم نے اس اسلامی نظریے ہی کی نفی کردی جس کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اگرقائداعظم کی 11اگست1947 ء کی تقریر سے کوئی اپنی من مرضی سے یہ معنی اخذ کرلیتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنانے کے حق میں تھے تو قائداعظم فروری 1948ء میں اہلِ امریکہ کے نام اپنے ریڈیو پیغام کے ذریعے ایسے سیکولردانشوروں کی خود تردید کردیتے ہیں۔قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’ میں نہیں جانتا کہ پاکستان کے آئین کی حتمی شکل کیا ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار اور جمہوری انداز کا ہوگا۔ اسلام کے یہ اصول آج بھی ہماری زندگی پر اُسی طرح قابلِ اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل و دیانیت کی تعلیم دی ہے ‘‘۔
قائداعظم کا یہ یقین کہ پاکستان کا آئین اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہوگا۔ قائداعظم نے 14 فروری 1948ء کو سبّی دربار( بلوچستان) میں خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہا تھا کہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا راز ان سنہرے اصولوں کے اتباع میں ہے جو ہمارے مقننِ اعظم حضورنبی کریمؐ نے ہمیں دئیے تھے۔ تو کیا یہ قائداعظم کا پیش کیا ہوا نظریۂ پاکستان نہیں ہے۔ قائداعظم نے جون1945ء میں سرحد مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’’ پاکستان سے صرف آزادی مراد نہیں بلکہ اس سے فی الحقیقت مسلم آئیڈیا جی مراد ہے جس کا تحفظ ضروری ہے ‘‘۔ کیا قائداعظم کا یہ فرمان نظریۂ پاکستان نہیں ہے۔نواز شریف نے بھی ملک کے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوکر اپنا یہ منصب سنبھالنے سے پہلے جو حلف اٹھایا ہے اس میں انہوں نے عہد کیا ہے کہ میں اسلامی نظریے کے تحفظ کیلئے کوشاں رہوںگا جو پاکستان کی اساس ہے۔ آج ہی ایک اخبار میں مَیں نے نواز شریف کا ایک موبائل پیغام پڑھا ہے جس میں انہوں نے اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مستقبل میں برسر اقتدار آنے کا موقع دیا تو میں مَیں پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا کر دم لوں گا۔نواز شریف نے یہ پیغام اپنے موبائل سے معروف صحافی انصار عباسی کے نام25مارچ 2012ء کو بھیجا تھا۔اگر نواز شریف اپنا یہ عزم اور اپنا یہ عہدہ بھول نہیں گئے تو ان کا پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے عملی قدم اٹھانا نظریۂ پاکستان کے نفاذ کی جانب مثبت پیش ہوگی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1973ء کا متفقہ دستور ایک تاریخی دستاویز ہے۔اس دستور میں واضح طورپر قوم سے تمام منتخب نمائندوں کی طرف سے یہ عہدہ کیا گیا تھا کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اللہ اور اسکے رسولؐ کا قانون نافذ ہوگا اور پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی نہیں ہوسکتی۔نواز شریف نے بھی اسی دستور کے تحت تین مرتبہ بطور وزیراعظم حلف اٹھایا ہے۔ تو کیا پھر اس ملک میں اسلامی ماحول اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل نواز شریف کے فرائضِ منصبی میں شامل نہیں۔ جن مقاصد کیلئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا اگر نواز شریف انہیں پورا نہیں کرتے تو اسے ہم بے عملی کہہ سکتے ہیں مگر نوازشریف ہوںیا ہمارا کوئی اور حکمران وہ اس تاریخی سچائی کو جھٹلا نہیں سکتا کہ تخلیق پاکستان کی اساس اسلام ہے اور یہی قائداعظم کا نظریۂ پاکستان ہے۔
قائداعظم کا نظریۂ پاکستان اور نواز شریف
Aug 29, 2013