لاہور میںزرداری کو جی آیاں نوں

لاہور میںزرداری کو جی آیاں نوں

 الوداعی لمحات کوبرداشت کرنا میرے لئے بے حد مشکل ہے، صدر زرداری کی طرف سے اسلام آباد کی دعوت ملی مگرمجھے حوصلہ نہ ہوا کہ ایک بھرے پرے ایوان صدر کو ویران ہوتے ہوئے دیکھوں۔
میں جنرل مشرف کو ان کے آخری دنوں میں ملنے گیا، جنرل راشد قریشی نے مجھ سے پوچھا، کیا محسوس کر رہے ہو، میں نے کہا کہ ملٹری ہاﺅس ایک قید خانہ نظر آرہا ہے۔کہنے لگے کیا یہ بات صدر سے کر سکتے ہو، میں نے جواب دیا کہ مجھے ایک دم توڑتے مریض کو بتانے کا حوصلہ نہیں کہ وہ آخری سانسوں پر ہے۔
میں نے یہ تائثر کیوں قائم کیا۔اس لئے کہ ملٹری ہاﺅس میں تعینات ہر فوجی مجھے شک کی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔میں نے اخبار مانگا لیکن صدر کے پریس ایڈوائز ر کے دفتر میں اخبارات کی فائل نہیں تھی،تھوڑی دیر کے بعد وہاں راشد قریشی بھی آ گئے، انہوںنے مجھ سے پہلا سوال یہ پوچھا کہ اسداللہ! آج کل کس اخبار میں ہو۔میرے پاﺅں کے نیچے سے زمین کھسک گئی کہ مجھے بلا تو لیا گیا ہے مگربلانے والوںکو میرے حدود اربعہ کا علم نہیں۔جب راشد قریشی نے مجھ سے دو تین بار کہا کہ میں اپنا تبصرہ صدر کو ضرور بتاﺅں۔ میں نے کہا، انہیں کیا بتاﺅں ، مجھے تو شک ہے کہ آپ بیرے کو میرے لئے چائے لانے کا حکم دیں تو وہ آپ کی نہیں سنے گا۔پھر وہ مجھے صدر سے ملوانے لے گئے، ایک بڑے کمرے میں چند منٹ انتظار کرنا پڑا، اس دوران ایک سفید وردی والے صاحب آئے جن سے کانا پھوسی کرتے ہوئے راشد قریشی نے بتایا کہ مہمان کا نام غالب ہے، میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں وہاں سے کیسے بھاگ نکلوں۔صدر کے ملٹری سیکرٹری کو بھی پتہ نہیں تھا کہ کون ملنے آگیا ہے، خیر ملاقات ہوئی، اندازہ ہے کہ وقت معینہ سے تین گنا زیادہ وقت لگا ، اسی ملاقات میں صدر مشرف نے بتایا کہ وہ مجید نظامی صاحب سے ملاقات سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ کھری کھری سنا دیتے ہیں۔
میں ایک روز اسلام ا ٓباد میں مزید ٹھہرا کیونکہ سڑک کے راستے سفر سے تھک گیا تھا، واپسی پر یعنی ملاقات سے تیسرے دن اس ملاقات کے حوالے سے کالم لکھا جو اگلے دن چھپا۔اس روز اچانک آئی ایس آئی سے ٹیلی فونوں کا تانتا بندھ گیا ، کوئی کرنل صاحب فرما رہے تھے کہ وہ مجھے اسلام آباد میں اپنے بڑے صاحب کے پاس لے جاناچاہتے ہیں۔میں نے کہا کہ میں وہاں تین دن رہا، اس وقت آپ لوگوں کو معلوم نہ ہوا کہ وہاں موجود ہوں ،یا میری صدر سے کوئی ملاقات ہوئی ہے، اب کیا بتاﺅں کہ اس کرنل صاحب نے کس طرح اگلے سات دن میری زندگی اجیرن کئے رکھی، صرف میری نہیں ، ان کے دفتر سے میرے رشتے داروں کے گھر بھی فون جا رہے تھے، ہر کوئی پریشان تھا کہ صدر سے ملاقات میںکیا گناہ سر زد ہو گیا ہے۔اس کے بعد تو میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا، اول تو شاذ ہی ایوان صدر سے کوئی بلاوا آیا ، اور آیا بھی تو میں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔اب صدر زرداری کے الوداعی دن ہیں۔ میں نے دانش مندی اسی میں سمجھی کہ اسلام آباد کا قصد نہ کروں، اس لئے کہ جن صاحب کی مہربانی سے میں آئی ایس آئی کے کرنل کے ہتھے چڑھا تھا، وہ اب پھر سائے کی طرح میرے تعاقب میں ہیں۔
مجھے خوشی ہو گی کہ صد زرداری آخری سلامی لینے کے بعد کراچی کے بجائے لاہور کا رخ کریں ، یہاں بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض نے ان کے لئے شایان شان محل تعمیر کروا دیا ہے، میڈیا کو اس سال کے اوائل میں اس کی یاترا کرو ادی گئی تھی، ہمارے پرانے دوست اکرم شہیدی لاہور کے بلاول ہاﺅس کے میڈیا ایڈوائزر ہیں مگر خبریں کم کم بتاتے ہیں، ان کا رویہ ابن صفی کے جاسوی ناولوں کے کسی کردار سے ملتا جلتا ہے۔ صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں۔ان کی مہربانی رہی تو لاہور کے بلاول ہاﺅس میں زرداری صاحب سے صحبت میسر آتی رہے گی۔
پیپلز پارٹی کے ہمدرد صحافی بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کی سیاست کا باب تمام ہو گیا، زرداری کے بس میں نہیں کہ پارٹی کے تنکے تنکے جمع کر سکیں، بلاول نے ان سے الگ منہ موڑا ہوا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ،لیکن زرداری صاحب کو سمجھنے والے ایسا نہیں سوچتے۔یہ شخص بہت گھاگ نکلا۔ اس نے بڑے بڑے جغادریوں کو ششدر کر کے رکھ دیا، دعویٰ تو ایک تعویذ گنڈے والے کا ہے کہ ا س نے پانچ سال پورے کروائے اور گوٹیاں فٹ کیں ، اس صاحب کرامت کو کنٹرول لائن پر کسی توپ کے دہانے میں فٹ کرکے پھینکا جائے تاکہ وہ بھارتی توپخانے میں گوٹیاں فٹ کرسکے جن سے آئے روز ہمارے فوجی ا ور شہری شہید ہو رہے ہیں۔ سیاست اور حکومت تعویذ گنڈے کی محتاج یا قیدی نہیں ہوتی۔ورنہ ہر کوئی اپنے ساتھ ایک بنگالی بابا ،پا بہ رکاب رکھتا۔
 میری رائے ہے کہ جس شخص کا نام زرداری ہے، وہ بڑا کایاں آدمی ہے، جس شخص نے ڈاکٹر مجید نظامی جیسے بہادر اور زیرک مدیر اور مدبر سے مرد حر کا خطاب پایا، لمبی جیل کاٹنے کی وجہ سے، وہ کیا شے نہیں ہو گا۔اس نے بڑے بھائی ، چھوٹے بھائی کی گردان کر کے میاں نواز شریف کا دل موہ لیا، کیا ہوا جو شہباز میاں اس پر لفظی گولہ باری کرتے رہے۔یہ لاہور کے بلاول ہاﺅس میں بیٹھے گا اور اپوزیشن کی سیاست چمکائے گا تو لوگ نوبزادہ نصراللہ خاںکے ڈیرے کی رونقوں کو بھول جائیں گے۔بس ایک شرط ہے کہ ملک ریاض شہر سے بحریہ ٹاﺅن کے لئے ایک شٹل سروس شروع کریں کہ اخبار نویس اتنے لمبے سفر پر جیب سے پٹرول خرچ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
لاہور کا بلاول ہاﺅس ، پنجابی محاورے میں شریکوں کی دیوار کے ساتھ۔۔ کھہہ۔۔ کر کھڑا ہے اور اسی اسپرٹ سے اسے آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ن لیگ کی گورننس کا اللہ ہی حافظ ہے، بہتر ہوتا شہباز میاں وزیر اعظم بن جاتے اور نواز میاں ایوان صدر سنبھال لیتے۔ پنجاب کو ایک ایم این اے حمزہ شہباز چلانے کے لئے کافی ہیں اور آدھے سے زیادہ وفاقی محکمے شہباز میاںکے کنٹرول میں لگتے ہیں۔وزیر اعظم ملک کے آرمی چیف سے ملتے ہیں تو بھی چیف منسٹر اس ملاقات میں بیٹھتے ہیں حالانکہ کوئی دوسرا چیف منسٹر اس موقع پر موجود نہیں ہوتا۔اس وقت پنجاب بدتریں سیلاب کی زد میں ہے لیکن اس سیلاب کی خبروں کا کیسے بلیک آﺅٹ کیا گیا ہے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے، ہر نالہ ابل چکا ہے اور ہر حفاظتی بند ٹوٹا ہے، نہروں میں درجنوں شگاف ہیں ، یہ پانی انسانی بستیوںمیں نہیں پھیلا تو کیا یہ بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔یہ حافظ سعید کس فلمی سین میں چپو چلاتے نظر آتے ہیں۔ پنجابی طالبان بھی ابھر کر سامنے آ گئے۔پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں کی دھنائی ہو ہی ہے، سینئرکالم نگار نذیر ناجی نے خبر دی ہے کہ انہیں پر اسرار کالیں آ رہی ہیں۔بجلی پہلے کی طرح غائب ہو گئی، اس پس منظر میں زرداری صاحب لاہور میں ڈیرہ جمائیں تو جی آیاںنوں، بس مک مکا کی سیاست نہ ہو، عوام کی بات ہو۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...