مکرمی! پاکستان مسلم لیگ کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے عمران خان صاحب کو پریشانی لاحق ہے کہ یہ کیا ہوا کہ میں نے حکومت بنانے کا جو خوِاب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا وہ شرمندۂِ تعبیر نہ ہو سکا اور اب اگر صبر کیا تو پانچ سال سے پہلے تو الیکشن ہونے والے نہیں اور اگر ہو بھی گئے تو ضروری نہیں کہ ان میں جیت لازم ٹھہرے وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت باوجود اس کہ ان کی کارکردگی سے عوام خوش ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ بجلی اور گیس کے متعدد نئے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ ملک اور صوبہ پنجاب جس طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہے، روزگار کے ذرائع بڑھ رہے ہیں، لگتا ہے اس سے عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کو سخت کوفت ہو رہی ہے اور وہ ترقی کے اس سفر کو ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ اسلام آباد میں دھرنوں کی آڑ میں نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے چکر میں بیٹھے ہیں۔ جبکہ کروڑوں عوام اپنے قائدین اور ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں جس پر یہ دونوں سوچ سوچ کر تلملا اٹھتے ہیں۔قادری صاحب کی آمد پر چوہدری برادران جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اب مسلم لیگ نون سے دوریوں کے سبب حکومتی سیٹوں سے دور ہونے کی وجہ سے کوئی سہارا ڈھونڈ رہے ہیں جو نواز حکومت کا خاتمہ کر کے ان کے اقتدار میںحصہ بننے کی راہ ہموار کر سکے۔یہی حال شیخ رشید کا ہے جو کبھی عمران کا چمچہ بنتا ہے تو کبھی طاہرالقادری کا۔ بات عمرانی انقلاب یا قادری انقلاب کی ہو تو اگر یہ واقعی حقیقی انقلاب کے داعی ہوتے تو چوہدریوں اور شیخ رشید جیسوں کو اپنے ساتھ نہ ملاتے۔ اب رہ گئی بات انقلابیوں کے مطالبات کی تو اس سلسلے میں یہ مطالبات منوانے کا سب سے بہتریں ذریعہ پارلیمنٹ ہے، کیا پاکستان تحریکِ انصاف نے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی ہے،انتخابی اصلاحات یا عدالتی اصلاحات کاکوئی منصوبہ پیش کیا ہے اگر نہیں تو کیا ان کا سڑکوں پر احتجاج بنتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اول تو کسی کو وطن کی فکر ہے ہی نہیں فقط کرسی کی فکر ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے کرسی کی فکر بڑھتی جا رہی ہے،مسلم لیگ نون کی حکومت سے جان چھوٹ جائے یہ تو پیپلز پارٹی کی بھی خفیہ خوِاہش ہو سکتی ہے کہ شائد اگر مڈ ٹرم انتخابات ہوںہوں تو ان کی بھی لاٹری لگ جائے ،تحریکِ انصاف کے پیرو کاروں سے معذرت کے ساتھ، عوام کا کچھ نہیں بدلنے والا، عوام کا کچھ بدلنا ہوتا تو خیبر پختون خوِاہ میں بہت کچھ بدل گیا ہوتا۔ سڑکوں پر تماشہ لگا کر سول نافرمانی کے اعلانات کرکے مارشل لاء تو لگایا جا سکتا ہے، جمہوریت کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری ہوش کے ناخن لیں ورنہ ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ چودھری برادران اور شیخ رشید کو مارشل لاء ویسے ہی راس ہے۔
(عرفان الحسن بھٹی، لاہور)